کرونا وائرس

اطلاعا ت کا بگاڑ ۔۔۔ کرونا وائرس

تحریر عبدالوحید نظامی

دنیا میں اس وقت سات ارب انسان بس رہے ہیں اور ہر انسان ایک شعور ہے گویا دنیا کے اندر سات ارب شعور کام کر رہے ہیں ۔ شعور سے مراد اطلاعات کے اندر معنی پہنانا ہے جب کسی چیز کے اندر معنی پہنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس چیز کے اندر تغیر ہے ، تبدیلی ہے ۔ نقطہ نظر کے اندر فرق ہے ۔ نوع انسانی کو اطلاع ملی کہ چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑی ہےاور جس وباء نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہےاور نوع انسانی میں اموات کا اضافہ ہوتاجارہاہے۔اسی ایک اطلاع نے لاشمار اطلاعات کا روپ دھار لیا پھر ڈاکٹروں ، علاج معالجہ کرنے والے مروجہ طریقوں کا ماہر ہر قسم کا مذہبی سکالر ، رہنما ، عامل ، بابے ، روحانی معالج، دانشور ، صحافی ، سیاسی لوگ ، انٹر نیٹ سوشل میڈیا کے گروپس ، فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ پر اطلاعات کا ایک طوفان برپا ہو گیا ۔ ایک بیماری کی اطلاع پر سات ارب انسان اس کا معالج ، ماہر اور حقیقت دان بن کر سامنے آ گئے ۔ خوف و ہراس ، مایوسی اور ذہنی پس ماندگی ، پریشانی اور نفسیاتی امراض کی ایک یلغارنوع انسانی کے اوپر مسلط کر دی گئی اور یہ سب کچھ ایک نادیدہ وائرس کا کرشمہ بن گیا ، انسان کا پیدل چلنا ، سائیکل ، موٹر سائیکل ، گاڑی ، ٹرین ، ہوائی جہاز ، دوکانیں ، فیکٹریاں ، کارخانے اور دنیا کے بڑے بڑے ادارے جمود کا شکار ہو گئے اور کھربوں ، اربوں اور کروڑوں کے اثاثہ جات کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ۔ معاشیات کے عالمی ماہرین نے اسے دنیا کا مالیاتی نظام پر قبضہ کی سازش قرار دیا ۔ مذہبی رہنماؤں اور اجارہ داروں نے عذابِ خداوندی کہا ۔ سیاستدانوں نے عالمی سیاسی بساط کی تبدیلی کا عندیہ دیا ۔ طب کے ماہرین نے اسے نوع انسانی کا قاتل قرار دیا ۔ سائنسدانوں نے اسکی ویکسین کی دریافتوں کا ڈھیر لگا دیا ۔ دانشوروں اور فلسفیوں اور مناسب اخلاقیات کے ماہرین نے گناہوں ، زیادتیوں ، حق تلفی ، لو ٹ مار ، منافع خوری ، رشوت اور غیر اخلاقی سر گرمیوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے ۔ ان حالات میں اب یہ حقیقت تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ بیماری کیا ہے اور اسکی دوا کیا ہے ۔ حالات جیسے بھی ہوں اور دور کیسا بھی گزر رہا ہو اللہ اور رسول ﷺ کی تعلیمات کے حامل فرستادہ روحانی بندے ہمیشہ نوع انسانی کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور نوع انسانی کو ہمیشہ وہ راستہ دیکھاتے رہے ہیں جس سے الہامی اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی علامت بن جاتا ہے ۔ اطلاعات کے تلاطلم خیز سمندر سے بچنے کے لیے نوع انسانی کو حقیقت سے آشنا کرنے کے لیے عظیم روحانی سائنسدان ابدال حق حضور بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کی روحانی سائنس کا ایک فارمولا بیان فرمایا ہے کتاب لوح و قلم کے صفحہ ۱۴۲ میں فرماتے ہیں ۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا ہے۔‘‘

دو قسمیں یا دو رخ مل کر وجود ہوتے ہیں ۔ مثلا پیاس ، شے کا ایک رخ ہے اور پانی دوسرا رخ ہے ، پیاس روح کی شکل و صورت ہے اور پانی جسم کی شکل و صورت ۔ یعنی امتثال کے دو رخ ہیں ایک روح دوسرا جسم ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔ اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا ۔ تصوف کی زبان میں روح والے رخ کو تمثل کہتے ہیں اور مادی رخ کو جسم کہتے ہیں ۔

          اگر دنیا میں کوئی وباء پھوٹ پڑے تو یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہے ۔ اسی طرح وبائی مرض اور اس وبائی مرض کی دوا دونوں ملکر ایک امتثال کہلائیں گے۔

قانون:

          کسی شے کی معنویت ، ماہیت یا روح علم شے کہلاتی ہے اور اس کا جسمانی انشراع یا مظہر شے کہلاتا ہے اگر کسی طرح روح کا اثبات ہو جائے تو شے کا موجود ہونا یقینی ہے ۔

          جس وقت ہم گرمی محسوس کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے احساس کے اندرونی رخ میں  برابرسردی کا احساس کام کرتا رہتا ہے۔جب تک اندرونی طور پر سردی کا یہ احساس باقی رہتا ہےہم خارجی طور ہر گرمی محسوس کرتے ہیں یعنی لاشعور میں سردی کا یہ احساس اور شعور میں گرمی کا احساس دونوں مل کر ایک امتثال ہے ۔ چنانچہ ایک رخ علم شے اور دوسرا رخ شے ہوتا ہے ۔ اگر کہیں علم شے کا سراغ مل جائے تو پھر شے کا وجود میں آنا لازمی ہے ۔

          اگر کسی کی طبیعت کونین (Cuinine) کی طرف رغبت کرنے لگے تو لازماً اس کے اندر ملیریا(Malaria) موجود ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے کیونکہ کونین کی رغبت علم شے اور ملیریا شے ہے ۔

          جب ہم مندرجہ بالا تحریر کا موجودہ حالات سے تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آئے گی کہ کرونا وائرس علم شے ہے اور نزلہ ، زکام ، کھانسی ،نمونیہ اور سردی لگنا باڈی کا بگاڑ یا جسم ہے ۔

          اگر ہم مزید گہرائی میں تفکر کریں تو قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے قانون کے مطابق کرونا وائرس نزلہ ، زکام ، کھانسی ، نمونیہ کی علامات ہے ۔ کرونا وائرس اور یہ علامات ملکر ایک وجود بناتی ہیں ۔ کرونا وائرس اور ان علامات کا تعلق ہمارے حواس کے ساتھ ہے حواس کی ایک شکل ہمیں یہ وائرس نظر نہیں آ رہا اور حواس کی دوسری شکل بیماری کی علامات ہمیں محسوس ہو رہی ہیں یا ہمارے جسم پر اس کا مظاہرہ ہو رہا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں نزلہ ، زکام ، کھانسی ، نمونیہ کی علامات کا نام کرونا وائرس رکھا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ علامات نوع انسانی کے اندر اس وقت سے ہیں جب دنیا میں پہلا انسان وجود میں آیا اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں ان علامات کا منتقل ہونا بھی ازل سے چلتا آ رہا ہے ۔ جب ہم طبی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو یہ علامات ختم ہو جاتی ہیں جس کو ہم عرف عام میں بیماری کا خاتمہ یا شفاء کہتے ہیں ۔ نزلہ ، زکام ، کھانسی ، نمونیہ ، سردی کا لگنا ایک علامت اور اسکی دوا یا علاج گرمی یا جسم کے اندر گرمی پیدا کرنے والے اجزاء ، دوائی یا ویکسین دوسرا رخ ہے ۔ یہ دونوں رخ ملکر ایک امتثال بن گئے ہیں ۔ امتثال کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جسم کو اگر سردی محسوس ہو رہی ہو تو گرمی کی طلب کرتا ہے اور اگر جسم گرمی کی مدت اثر انداز دونوں کی علامات جس پر اثر انداز ہو رہی ہیں اور یہ دونوں علامات محسوسات کے علاوہ کچھ نہیں اور محسوسات اطلاعات کے ذریعے کام کرتی ہیں۔ اطلاعات بھی دو طرح کام کرتی ہیں۔

          اطلاعات کا ایک رخ ظاہر میں کام کرتا ہے اور دوسرا رخ باطن میں کام کرتا ہے ۔ ظاہری حواس اور اطلاعات یا باطنی حواس اور اطلاعات اصل میں ایک ہی ہیں ۔ اس میں فرق صرف معنی پہنانے کا ہے اگر اطلاعات کے اندر اپنی غرض و غایت اور مفادات کے انفرادی رخ پر سوچا جائے تو طرز فکر بندے کو اذیت ، تکلیف بیماریوں اور شیطنت کی طرف لے جاتی ہے اگر طرز فکر میں تمام نوع انسانی اور کائنات کو شامل کر دیا جائے تو یہ انسان کو سکون ، خوشی اور آرام و آسائش کی طرف لے جا کر اللہ کی صفات سے ہم آہنگ کرا دیتی ہے ۔

          حضور قلندر بابا اولیاء نے دنیا کے تمام دانشوروں کو وحی اور الہام کی طرز میں اپنانے پر زور دیا جس میں نوع انسانی کی بقا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جو نور پوری کائنا ت میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذرے ذرے کو ملتی ہیں ۔ ان اطلاعات میں سونگھنا ، چکھنا ، سننا ، محسوس کرنا ، دیکھنا ، خیال کرنا ، وہم و گمان وغیرہ زندگی کا ہر شعبہ ، ہر حرکت ، ہر کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے ۔ انسان ہر طرز میں ہر معاملے میں ، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو۔ انسان اگر ذاتی اغراض کی قیدو بند میں مبتلا نہیں تو وہ نور کی ان شعاعوں کو پوری کائنات پر محیط دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے ۔ چنانچہ شعاعوں کا اور اس کے زاویۂ نظر کا ایک خاص ارتباط قائم ہو جاتا ہے ۔ جو اللہ کا قانون کے زیر اثر شعاعوں کے لیے محل توجہ ہے ۔ اب اس کے مفاد کا تحفظ شعاعیں خود کرتی ہیں ۔

          اللہ کے دوست خانوادہ سلسلہ عظیمیہ الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی نے استغنیٰ کو حاصل کرنے اور کائناتی نور میں داخل ہونے کے لیے موجود ہ حالات میں نوع انسانی کو مرتبہ احسان کا مراقبہ تجویز فرمایا ہے ۔

          مرتبہ احسان یہ ہے کہ

’’ رحیم و کریم اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہم اس کے سامنے سر بسجود ہیں ۔‘‘

          اللہ تعالیٰ کی ذات کا خلاصہ قرآن مجید میں سورۃ اخلاص کے اندر بیا کر دیا گیا ہے ۔

          اللہ ایک ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے ۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا  اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔

          جب کوئی انسان اللہ کی ان صفات کو سامنے رکھ کر اللہ کو دیکھنے کے لیے تلاش کرتا ہے تو اس کا ذہن بے خیال ہو جاتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی بیماری ، خوف ، ڈر ، پریشانی ، تکلیف اور اذیت نہیں رہتی ۔ اللہ کو دیکھنے کی کوشش میں بے خیالی اللہ کے انوارات و تجلیات کو جذب کرنا شروع کر دیتی ہے اور انسان اللہ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ۔

          حضور قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات کی روشنی میں مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے رنگ روشنی سے علاج کے حوالے سے ایک امتثال نوع انسانی کے فائدے کے لیے بنایا ہے ۔ جس میں سبز رنگ اور جامنی رنگ کروناوائرس کو ختم کرتا ہے ۔ کمپیوٹر کی کلر کاٹریج (Colour Cartridge) کے اندر تین رنگ ہوتے ہیں جو بنیادی رنگ تصور کیے جاتے ہیں اور ان سے دنیا کا ہر رنگ کا شیڈ بنایا جا سکا ہے ۔ نیلا+پیلا+ سرخ ۔ جس طرح علم طب کے اندر ادویات اور اجزاء کے مزاج ہوتے ہیں اس طرح رنگوں کے بھی مزاج ہوتے ہیں ۔ رنگ روشنی کے علاج کے مطابق نیلے رنگ کا مزاج سرد، پیلے رنگ کا مزاج گرم اور سرح رنگ کا مزاج گرم خشک ہے ۔

          سبز رنگ نیلے اور پیلے رنگ کے ملاپ سے بنتا ہے طبی اصولوں کے مطابق سبز رنگ معتدل کہلاتا ہے اور بالکل اس اصول کے مطابق نیلے رنگ اور سرخ رنگ سے جامنی یا بنفشی رنگ وجود میں آتا ہے جو اپنے مزاج میں معتدل ہے ۔ معتدل سے مراد نہ گرمی پیدا کرتا ہے نہ سردی کو بڑھنے دیتا ہے ۔ اور جسم کے اندر گرمی سردی کو نارمل کرتا ہے ۔ کرونا وائرس جسم کے اندر مدافعتی نظام کو کمزور کر کے سردی پیدا کر دیتا ہے ۔ اور سرد جگہوں پر اسکے اثرات شدت سے بڑھ جاتے ہیں  ۔ اس شدت کو ختم کرنے کے لیے سبز رنگ اور جامنی رنگ کا استعمال نہ صرف کرونا وائرس کو ختم کرتا ہے بلکہ جسم کے اندر مدافعتی نظام کو بحال کرتا ہے ۔

          طبعی نقطہ نظر سے روغن زیتون کے اندر پیلے رنگ اور روغن بادام کے اندر سرخ رنگ کا غلبہ ہوتا ہے ۔ یہ دونوں روغن کرونا وائرس کا بہترین علاج تصور کیے جاتے ہیں ۔

          امتثال کے قانون کے مطابق جسم کا نظام اور کروناوائرس کی علامات کے مطابق قوت مدافعت کی کمزوری ایک رخ اور اسکی دوائی سبز اور جامنی رنگ دوسرا رخ ملکر قدرتی مقداروں میں توازن پیدا کر دیتے ہیں ۔

          نوع انسانی کی بقا اس میں ہے کہ وہ تمام نظریات جو انسانی زندگی کے اندر بگاڑ پیدا کررہے ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے اطلاعات کا منبع حقیقی ذات اللہ تعالیٰ کے تعلق استوار کرے ۔ جب انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہے ہیں تو وہ خوف اور غم سے آزاد ہو کر اس کے دوست کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *