- تخلیقی فارمولوں کی ماں۔۔۔حضرت مریم ؑ
تحریر :عبدالوحید نظامی
قرآن مجید کی سورہ نوح کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
{وَاللّٰہُ اَمنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا}
ترجمہ:’’ اور اللہ نے تم کو اُگایا جس طرح زمین سے درخت اگتے ہیں‘‘
قرآن مجید کے اندر جگہ جگہ انسان کا زمین سے تعلق ، گارا، مٹی ، ٹھیکری کی صورت میں کیا گیا ہے یعنی انسان کو مٹی سے بنایا ، گارے سے تخلیق ٹھیکری کی شکل اختیار کر گیا وغیرہ ۔ لیکن سورۃ نوح کے اندر یہ آیات اپنے اندر تخلیق کا ایک وسیع معنی و مفہوم رکھتی ہے ۔ درخت کی زندگی اور انسان کی زندگی میں حرف حرکات کا فرق ہے ۔ جسمانی ساخت اور تقاضے ایک جیسے ہیں ، درخت زمین کے ساتھ ایک جگہ جڑا رہتا ہے اور انسان کے پاؤں زمین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتا پھرتا ہے ۔ باٹنی یعنی علم نباتات کا علم اور اناٹامی یعنی جسم انسانی کا علم بتاتا ہے کہ درخت کا دماغ زمین کے اندر جڑوں کے درمیان ہوتا ہے اور اسکے حواس اور ہاتھ پاؤں شاخوں پتوں کی شکل میں باہر ہوتے ہیں ۔ جبکہ انسان کا دماغ خلاء یا آسمان کی طرف ہوتاہے ۔ اس کے ہاتھ پاؤ ں خلاء یا فضا کے اندر حرکت کرتے ہیں ۔ درخت کی زمین کے نیچے باریک باریک جڑیں بالوں کا کام کرتی ہیں اور پانی ،غذا کے اجزاء اور گرمی جذب کرتی ہیں بالکل اسی طرح انسان کے جسم کے بال بھی روشنی کی لہروں کو جسم کے اندر منتقل کرتے ہیں۔
انسانی مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں فرق کی وجہ سے بالوں میں بھی فرق آ جاتا ہے ۔ مرد اور عورت کے جسم کے پچھلے اعضاء بالکل ایک جیسے ہیں مرد اور عورت کے فرق کو واضح کر نے کے لیے عورتوں کے سر کے بال پچھلے حصہ کی طرف بڑھا دیئے جاتے ہیں یہ لمبے بال عورت کے پچھلے حصے کی پہچان بن جاتے ہیں ۔ مرد اور عورت کے سامنے والے اعضاء تخلیق اعضاء کی بنا پر مرد عورت کا تعین کر دیتے ہیں ۔ مرد کے جسم پر بال ،سر پر بال ،ہونٹوں کے اوپر بال ، تھوڑی پر بال ، کندھوں کے نیچے بال ، سینے پر بال ، زیر ناف بال اور جسم کے دیگر حصوں پر ہلکے یا دبیز بال ہوتے ہیں ۔ جبکہ عورت کے سر پر بال ، کندھوں کے نیچے بال ، زیر ناف بال اور باقی جسم پر روئیں یا ہلکے بال ہوتے ہیں ۔ لیکن ہونٹوں اور تھوڑی پر با ل نہ ہونا صنف کے فرق کو واضح کر دیتا ہے۔ مرد عورت کے جسم پر بال فضا سے روشنی اور اسکی لہروں سے برقی رو کو جسم کے اندر منتقل کرنے کا ذریعہ ہے ۔
مرد اور عورت کے سر کے بال برقی رو کو جذب کر کے دماغ کے اندر موجود سیل کو چارج کرتے ہیں اور یہ برقی رو، واہمہ ، خیال اور تصورات کی صورت میں دماغی سیلز میں جذب ہو کر خون میں شامل ہو کر جسمانی نظاموں کو متحرک کرتے ہیں ۔ درختوں کے اندر بالکل یہی کام درختوں کی جڑیں اور پتوں کی باریک باریک رگیں کرتی ہیں۔ زمین کے اجزاء اور فضا کے اندر ہوا ، روشنی اور پانی ملکر درختوں کے اندر ضیائی تالیف(Photosynthesis) کا عمل مکمل کر کے برقی رو اور درختوں کے اندرونی نظام کو متحرک کر کے ، پھول ، پھل اور پتوں کو تخلیق کرتی ہے ۔ انسان کے بال جلد کے اندر گھسے ہوتے ہیں ۔ جلد کے نیچے گوشت ہوتا ہے،گوشت کے اندر ہڈیاں ہوتی ہیں ، ہڈیوں کے اندر گودا ہوتا ہے ۔ گودے کے اندر تیل ہوتا ہے ۔ اور تیل کے اندر آگ پکڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تیل کے اندر حرارت ، انرجی یا طاقت ہوتی ہے اس حرارت ، توانائی یا طاقت سے جسمانی نظام قائم ودائم رہتا ہے ۔ تمام درختوں سے لیکر تمام حیوانات کی زندگی اس تخلیقی فارمولے پر رواں دواں ہے ۔انسانی جسم کے اندر تحلیق نر اور مادہ کے ملاپ سے ہوتی ہے ۔ مرد کا بیج اپنی زوجہ کی زمین میں جذب ہوتا ہے ۔ زمین کے اندر انرجی خون بن کر بیج کے اندر جذب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس خون سے بیج ایک انسان کا روپ دھار کر ماںکے جسم کو پھاڑ کر دنیا میں اس طرح نمودار ہو جاتا ہے جس طر ح ایک درخت کا بیج زمین کو پھاڑ کر پودے کی شکل میں باہر آجاتا ہے ۔ کسی بھی درخت کی یہ خصوصیت ہوتی ہے وہ زمین پر جا کر اپنا ، پھل پھول اور پتے خود تخلیق کرتا ہے ۔خود کار تخلیقی نظام( Self Prodection) کی یہ صلاحیت جاندار چیزوں میں صرف درختوں کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ باقی ہر مخلوق نر مادہ کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے ۔ درختوں کا بیج زائیگوٹ (Zygote)یعنی نر مادہ یا دونوںکی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس لئے زمین کے اندر جا کر اسے نر مادے کی طرح ملاپ کی ضرورت نہیں رہتی ۔
قرآن مجید میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ درختوں کی یہ صلاحیت انسانی جسم کے اندر بھی موجود ہے۔ جس طرح درخت زمین سے پروان چڑھتا ہے ۔ اسی طرح انسان بھی زمین سے درختوں کی طرح پروان چڑھتا ہے ۔ درخت کا جسم اور انسان کا جسم کی چیز کو تخلیق کرنے میں ایک جیسی صلاحیت رکھتا ہے ۔ درخت کی طرح Self prodection تخلیق کا مظاہرہ حضرت مریم کے جسم کے ذریعے ہوا۔ حضرت مریم کا جسم کس طرح کا تھا اور اس کے جس کی ساخت کیا تھی ہمیں قرآن کے اندر سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 36,35اور 37 کے اندر انتہائی گہرا تفکر کرنا ہو گا۔
{ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ج اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ}
ترجمہ: ’’جب عمران بیوی نے کہا اے میرے رب میرے بطن میں جو کچھ ہے اسے میں تیری نذر کرتی ہوں تو اسے میری طرف سے قبول فرما یقیناتو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ۔‘‘
{فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی ط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ط وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی ج وَاِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم}
ترجمہ: ’’جب اس نے بچی کو جنا تو کہنے لگیں کہ پروردگار مجھے تو لڑکی پیدا ہوئی ہے لیکن یہ تو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کیا پیدا ہوا اور لڑکا تو لڑکی جیسا نہیں ہوتا۔ میں نے اس کا نام مریم رکھا میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘
{فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَمنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا لا وَّکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا جط کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ لا وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا ج قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا ط قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَاب}۔
ترجمہ:’’ پس اس کے پروردگار نے اس کو قبول کر لیا اور اسکی پرورش احسن طریقے سے درخت کی مانند ہوئی اور اسے زکریا کی کفالت میں داخل کر دیا۔ جب کبھی زکریا اس کی خبر لینے اس کے حجرے میں جاتے تو وہاں رزق دیکھتے ۔ کہا مریم تمہارے پاس رزق کیسے آتا ہے تو وہ جواب دیتی کہ یہ اللہ کی طرف سے آتا ہے بے شک اللہ بے حساب رزق دینے والا ہے ۔‘‘
ان آیات کے اندر تفکر بتاتا ہے حضرت مریمؑ کی پرورش ایک خاص نظام کے تحت ہو ئی ۔اَمنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا کے الفاظ وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت مریم ؑ کا جسم اس طرح پروان چڑھا جس طرح درخت کا جسم یا نظام پرورش کرتا ہے ۔ اور یہی الفاظ سورہ نوح میں ہیں کہ ہم نے تم کو زمین سے درختوں کی طرح پیدا کیا۔ حضرت مریم ؑ کا پاس رزق آنا ان کی تخلیقی فارمولوں پر گرفت اور مہارت کو ظاہر کرتا۔ رزق کی جتنی اشیاء ہمیں گندم ، چاول ، پھل ، دالیں یہ سب اجناس ، نباتات یا درختوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں اور حضرت مریم ؑ کا جسم ان سب کو تخلیق کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا تھا۔
قرآن مجید میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر59 میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ ؑ کی مثال ہو بہو آدم ؑ کی ہے جسے مٹی سے بنا کرکہہ دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا۔
آدم ؑ کی تخلیق کے لیے مٹی ، گارا کے اندر روح پھونکی گئی ،حضرت مریم ؑ کا جسم مبارک بھی مٹی یا گارے کا قائم مقام ہو گیا حضرت عیسیٰ ؑ کی تخلیق کے سلسلے میں بھی حضرت مریم کے اندر روح پھونکی گئی جس طرح زمین سے درختوں اور پودوں کی پرورش یا پیدائش ہوتی ہے اسی طرح حضرت مریم ؑ کے جسم سے رزق اور حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کی پیدائش معرضی عمل میں آئی۔ آیت نمبر 36 میں یہ بات واضح لکھی ہوئی ہے کہ لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا ہے۔
مطلب مرد کا بیج اور عورت کی زمین الگ الگ عمل ہے ۔ جب تک بیج زمین کے اندر نہ جائے تخلیق کا عمل مکمل نہیں ہوتا ہے ۔ جبکہ زمین اپنے اندر سے بغیر بیج کے درخت نکال سکتی ہے کیونکہ زمین کے اندر داخل ہونے والا بیج اسی مٹی سے تخلیق ہوا۔ اب فارمولا یہ بنا بیج خود کار نظام کے تحت تخلیق نہیں کر سکتا۔جبکہ زمین یا مٹی خود کار نظام کے تحت ہر قسم کی تخلیق کر سکتی ہے ۔ لہٰذا حضرت مریم ؑ کا جسم تخلیقی فارمولوں میں زمین کا قائم مقام تھا۔ روحانی فارمولوں کے مطابق حضرت آدم ؑ کی تخلیق بھی مٹی سے ہوئی تو ان کا جسم بھی مٹی کے قائم ہو گیا ان کے جسم سے حضرت حوّا کا وجود پیدا ہو گیا۔ آدم ؑ کا جسم یعنی زمین یا مٹی سے تخلیق کا فارمولا حوّا کی شکل میں مکمل ہو گیا تو ان کو جنت میں داخل کر دیا گیا اور ان پر پابندی لگا دی گئی کے درخت کی قربت اختیار نہیں کرنی یعنی درخت کے خواص سے دور رہنا ہے ۔ درختوں کے خواص یہ ہیں کہ ان کے بیج زمین کے اندر داخل ہو کر درخت بن جاتے ہیں آدم اور حوّا چونکہ بیج اور زمین کا عکس یا ممثل ہیں اسلئے ان کے اندر اولاد کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ جب درخت کے خواص اور انسا ن کے خواص آپس قربت اختیار کر گئے تو انسان ضروریات زندگی کے لیے درخت کا محتاج ہو گیا اور درخت زمین کے ساتھ جڑ کر محدود ہو کر رہ گئے ۔
عظیم روحانی سائنسدانوں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں انسان پاؤں کے ذریعے زمین سے لٹکا ہوا ہے زمین خلاء کے اندر گردش کر رہی ہے ۔ جس سے انسان اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن پاؤں زمین کے ساتھ چپکے ہونے کی وجہ سے لٹکا رہتا ہے ۔ اس طرح درخت زمین کے اندر اپنی جڑوں اور تنے کی وجہ سے پھنسا ہوتا ہے اور اس کی شاخیں اور پتے کھڑے رہتے ہیں ۔اگر جڑیں زمین سے نکل جائیں تو درخت نیچے گر جاتا ہے بالکل اسی طرح انسان کے پاؤں زمین کی کشش اور زمین کے گرد دباؤ سے جکڑے ہوتے ہیں ۔ جب زمین اور پاؤں کے درمیان گرفت ختم ہو جاتی ہے انسان نیچے گر جاتا ہے جسے موت کہتے ہیں ۔ پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت سیدھا نہیں کر سکتی یعنی زندگی کی حرکات و سکنات پاؤں کے زمین کے ساتھ جڑے رہنے سے ہی ہے ۔ جب ماں حاملہ ہوتی ہے تو ہمارے بزرگ یہ بات کہتے ہیں کہ بہو کے پاؤں بھاری ہو گئے ۔ مطلب ماں زمین سے اپنے لئے بھی انرجی لیتی ہے اور پیٹ کے اندر بچے کے لیے بھی جذب کرتی ہے ۔ زمین پر تمام مخلوقات اپنی زندگی کے لیے زمین کی محتاج ہے اور حقیقت میں زمین ہی ہماری ماں ہے جو مرنے کے بعد اپنی اولاد کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ۔ چونکہ زمین پر انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے ۔ اسلئے زمین کی تمام صلاحتیں انسان کے اندر موجود ہین ان صلاحیتوں کا مظاہرہ اللہ کی برگزیدہ ہستیوں کے ذریعے ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے مریم اور عیسیٰ علیہ السلام کو جہاں والوں کے لیے اپنی نشانی بنا دیا ہے ۔ حضرت عیسی ؑ اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہمیں اللہ کی صفات کا علم دیتی ہے اور ان صفات کا مظاہرہ زمین اور حضرت مریم ؑ کا جسم ہے اور حضرت مریم ؑ اپنے جسم کے اندر تخلیقی فارمولوں سے واقفیت رکھتی تھیں اور وہ اس بات سے واقف تھیں کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے لہٰذا اللہ کے ساتھ منسلک ہونا دنیا کی تمام عورتوں پر فضیلت کا سبب بن گیا۔ دنیا کی تمام عورتوں کے اندر تخلیق و صف موجود ہے ۔ اس وصف سے واقفیت اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے ۔
حضرت مریم ؑ کے جسم کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور حضرت آدم علیہ السلام کے جسم سے حضرت حوّا کی پیدائش یہ فارمولا ظاہر کرتی ہے ۔ اگر انسان مٹی کے اندر جاری تخلیقی لہروں سے واقفیت حاصل کر لے تو اللہ کے نائب کے فرائض سر انجام دے سکتا ہے ۔
قرآن مجید کے مطابق رزق کا تمام نظام آسمان سے نازل ہونے والے پانی کا زمین کے اندر داخل ہونے سے چلتا ہے ۔ آسمان اور زمین ایک نورانی بیلٹ پر کام کرتے ہیں ۔ یہ نورانی بیلٹ نہ صرف زمین و آسمان کو تخلیق کرتی ہے بلکہ اللہ کی صفات کو انسان کے سامنے لاتی ہے ۔