دودھ کی غذائی و طبی افادیت

دودھ کی غذائی و طبی افادیت

دودھ اللہ تبارک و تعالی’ کی طرف سے حضرت انسان کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ ایک سفید سیال ہے جو قدر شیریں ہوتا ہے۔ دودھ میں غذائی اجزاء کے ساتھ ساتھ دوائیت کا عنصر بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ جہاں ایک طرف جسم انسانی کے لئے تغذیہ فراہم کر کے اسکی نشو و نما میں اہم رول اداکرتا ہے وہیں یہ اپنے اندر دوائی تاثیر بھی رکھتا ہے جس کی مدد سے یہ مختلف اقسام کے امراض سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دودھ (شیرمادر) بچوں کے لیے فطری اور سب سے زیادہ مناسب غذا ہے۔ وہ بچے جو دودھ پینے کے عادی ہوتے ہیں ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ دودھ کے اندر کیلشیم کا عنصرپایا جاتا ہے جو ہڈیوں کو مضبوط رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں بھاری مقدار میں پروٹین، شکری مادے اوشحمیات پائے جاتے ہیں ۔ جو جسم کی نشو ونما میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔

دودھ کے اندر غلظت، رقت، مائیت اور افادیت مختلف قسم کے جانور، عمر، ماحول و علاقہ، صحت اور چراگاہ پر منحصر ہے۔ وہ جانور جو جوان اور صحتمند ہوتے ہیں ان کا دودھ عمدہ ہوتا ہے۔ بہار کے موسم کا دودھ گرمی کے موسم کے بالمقابل میں پتلا ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ جانور جو ہری بھری چراگاہوں میں چرتے ہیں ان کا دودھ مرطوب ہوتا ہے اور جو جانور پہاڑوں میں چرنے والے ہیں ان کا دودھ گرم خشک ہوتا ہے۔ دودھ تین جوہر سے مرکب ہوتا ہے۔ اول جبنیت (پنیر)، دوسری مائیت (پانی) اور تیسری چیززبدیت (مکھن) ہے۔ جب ان چیزوں کو دودھ سے علاحدہ کر لیا جاتا ہے تو ان کے افعال و خواص دوائی وغذائی بھی الگ الگ ظاہر ہوتے ہیں ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ دودھ استحالہ کے اعتبار سے بہت جلد تغیر پذییر ہوتا ہے یعنی جب اس کے اندر ہوا اور ماحول کی حرارت پہونچتی ہے تو اس کی کیفیت اصل کیفیت سے ہٹ جاتی ہے۔ اسلئے اطباء کا کہنا ہے کہ دددھ نکالنے کے فورا بعد ہی استعمال کیا جائے۔ جس دودھ میں مائیت زیاد ہ ہوگی وہ کم نقصان کرتا ہے۔ کیونکہ یہ جلد ہضم ہو جاتا ہے۔ سب سے عمدہ دودھ عورت کا ہوتا ہے، کیونکہ یہ سب سے زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کہ یہ سب سے عمدہ غذا ہے۔

دودھ کی غذائی و طبی افادیت

مزاج

دودھ مزاج کے اعتبار سے حرارت اور برودت میں معتدل اور ربط ہوتا ہے ۔

*اقسام و خصوصیات*

٭مختلف جانوروں کا دودھ خصوصیات کے لحاظ سے جدا جدا ہوتا ہے۔

٭سفید جانور کا دودھ قوت کے اعتبار سے ضعیف ہوتا ہے کیونکہ سفید جانور خود ضعیف ہوتا ہے۔

٭کمسن جانوروں کو دودھ زیادہ مرطوب ہے اور بوڑھے جانوروں کا دودھ خشک ہے۔

٭اونٹنی کا دودھ سب سے زیادہ مرطوب ہے اور چکنائی میں سب سے کم ہے۔ یہ ایسے حیض کو جاری کرتا ہے جو حرارت اور خشکی کے باعث رک گیا ہو۔ اس کے پینے سے رحم کے اورام کھل جاتے ہیں ۔

٭بکری کادودھ رقت اور غلظت کے اعتبار سے معتدل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گائے کا دودھ ہضم نہیں کر پاتے ہیں وہ بآسانی بکری کا دودھ ہضم کر لیتے ہیں ۔ یہ ترطیب، بدن کی شادابی، خارش اور جذام میں موافق و مفید ہے۔ نیز یہ نفث الدم اور پھیپھڑے کے زخم میں فائدہ دیتا ہے۔

٭بکری کا دودھ گائے کے دودھ سے کم مسہل ہے اور ہر حال میں اس کی منفعت معتدل ہے۔ یہ غذائیت زیادہ ہوتی ہے اور تمام دودھ میں کم نقصان دہ ہے۔

٭بھیڑ کا دودھ گاڑھا، میٹھا اور چکنا ہوتا ہے۔ یہ کھانسی، دمہ کے لئے مفید ہے اور دماغ اور نخاع میں صحتمند افزائش کرتا ہے۔

٭گائے کا دودھ سب سے بہتر اور عمدہ ہوتا ہے۔ یہ مقوی اور جسم کو تغذ یہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے بڑھاپا دیر سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ سل و دق، نقرس اور پرانے بخاروں میں مفید ہے۔ نیز گائے کی چھاچھ سل کے لئے مفید ہے۔

٭گدھی کے دودھ میں جبنیت نہیں ہوتی ہے اس لئے یہ جلد ہضم ہوجاتا ہے اور اس سے نفخ بھی نہیں ہوتا۔ یہ التہاب قلب و ریہ، پیچس اور خونی دستوں میں مفید ہے۔ امراض صدر میں بالخصوص سل و دق کے زخموں میں بے حد مفید ہے۔ نیز یہ سمی اثرات کو زائل کرتا ہے۔

*افعال و خواص*

٭دودھ خشک مزاج والوں کے لئے عمدہ غذا ہے۔ کیونکہ یہ ان میں رطوبت اور شادابی پیدا کرتا ہے۔

٭ دودھ مرطب ہونے کی وجہ سے سل و دق، خشک کھانسی اور پیشاب کی جلن میں مفید ہے۔

٭ دودھ دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے اور نیند لاتا ہے۔

٭امراض قلب، غم و وسوا س ا ورحشت کو دور کرتا ہے۔

٭پیشاب آور ہے اس لئے اس کا استعمال پیشاب کی جلن میں مفید ہے۔

٭باہ کی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔

٭دودھ کا پینا منھ سے خون، کھانسی، سل اور پھیپھڑے کے زخم، مثانے کے زخم اور خناق میں مفید ہے۔

٭یہ حلق، تالو، کوؤں کے ورم میں مفید ہے۔ اگر اس میں مغزاملتاس شامل کر کے غرغرہ کریں تو زیادہ مفید ہے۔

٭تمام اقسام کے دودھ آشوب چشم (آنکھ سرخ ہونا و دکھنا )میں مفید ہے۔

٭اگر دودھ کے ساتھ روغن گلاب اور تھوڑی انڈے کی سفیدی کا اضافہ کر لیں اور پپوٹوں پر لگائیں تو ورم اجفان میں مفید ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *