سیر کا مفہوم
قرب الہٰی حاصل کرنے کے مراتب عالم مثال میں کشف کی نظر سے ایک دائرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور سالک کو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیر کر رہا ہے(۴۳۳)۔ سالک کے ایک حال سے دوسرے حال، ایک تجلی سے دوسری تجلی ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہونے کا نام سیر ہے۔ جب کوئی طالب معرفت کی تعلیم کے لئے طریقت کے کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کرتا ہے تو وہ اس کی نسبت میں گم ہو جاتا ہے اور قرب حق کے حصول کے لئے موارج و منازل سے گزرتا ہے۔ اس کا نام سیر ہے۔ سیراصل میں حق تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے کا نام ہے۔ حضرت شیـخ سعدی ؒ کے فرمان کے مطابق جب کوئی بندہ مومن اسپ شوق پر سوار عشق و درد کی مہمیز لگا کر عالم بالا کی طرف باطنی اور روحانی سیر کرتا ہے تو وہ فرشتوں سے بھی سبقت لے جاتا ہے۔ سیر و سلوک حرکت علمی کا نام ہے۔ یہ حرکت جسمی نہیں ہے ۔ یعنی سالک کو عالم بالا کی طرف سیر کے دوران انتقال مکانی نہیں بلکہ انتقال علمی ہوتا ہے۔(۴۳۴)
جب سالک کا قلب ذاکر ہو جائے تو لطیفہ قلب فنا ہو کر بقا حاصل کرتا ہے اور اس کا رنگ نفس کے لطیفہ پر آتا ہے اور جب لطیفہ نفس لطیفہ قلب کے رنگ میں رنگ جائے تو وہ بھی فنا پا کر بقا حاصل کرتا ہے۔ جس کی علامت یہ ہے کہ نفس کی سرکشی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنا ارادہ ختم کر کے ارادہ ـخداوندی کے تحت ہر حکم کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا جانتا ہے اور اس میں اخلاق الٰہی ظاہر ہوتے ہیں اور سالک وجدانی طور پر محسوس کرتا ہے کہ اس کی اپنی ذات سمیت ہر چیز فانی ہے۔مگر از خدا باقی ہے۔ سالک کو یہ ادراک وجدانی طور پر ہوتا ہے۔ عقلی اور منطقی طور پر نہیں ہوتا اگر یہ ادراک وقتی طور پر ہو تو اس کو سیر کہتے ہیں اور اگر دائمی طور پر ہو تو مقام کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں سالک کو باری تعالیٰ کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اور اس مقام پر توحید کا اصلی معنی سالک پر ظاہر ہوتا ہے ۔(۴۳۵)
سیر کے طریقے:
سیر آفاقی:
سیر آفاقی سلوک سے طے ہوتے ہے جس کا مطلب یہ ہے سالک کا اللہ تعالیٰ کو اپنے وجود سے بیرونی چیزوں میں ثابت کرنا اور تلاش کرنا(۴۳۶)۔ آفاق سے مراد کائنات ہے اور سیر آفاق میں تجلیات اسماء و صفات کا ظہور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیر آفاقی میں اسم ظاہر کے معارف و تجلیات سالک کی تعیبر و ادراک میں سما سکتے ہیں۔سلوک خدا تک پہنچنے کا وہ راستہ ہے جو مجاہدہ اور سیر کشی عیانی طے کیا جاتا ہے(۴۳۷)۔ سیر آفاقی فنا ئے قلب کے ذریعے حاصل ہوتی ہے یعنی سالک اپنے نفس کے باہر کے تعلقات جن کو آفاقی تعلقات کہتے ہیں کم کرے اور یہ سیر نفی اثبات سے طے ہوتی ہے جس میںبیوی بچے، دنیا، مال و دولت ، اولاد کی محبت ان تمام آفاقی چیزوں پر غالب آجائے ایک خاص طریقے سے آہستہ آہستہ دنیاوی تعلقات کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے(۴۳۸)۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں سیر آفاقی کا حال یہ ہے کہ سالک اپنے اوصاف کی تبدیلی اور اخلاق کے تفسیر کو عالم مثال کے آئنے میں مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی کدورتوں اور ظلمتوں کا دور ہونا اس جہان میں محسوس کرتا ہے تاکہ اس کو اپنی صفائی کا یقین اور اپنے تزکیہ کا علم ہو جائے جب سالک اس سیر میں دم بدم اپنے احوال و اطوار کو عالم مثال میں جومن جملہ آفاق کے ہیں مشاہدہ کرتا ہے اور اس عالم میں ایک حالت سے دوسری حالت میں اپنی تبدیلی کو دیکھتا ہے تو گویا اس کی یہ سیر آفاق ہی میں ہے۔ اگرچہ در حقیقت یہ سیر سالک کے اپنے نفس کی سیر ہے اور اس کے اپنے اوصاف و اخلاق میں حرکت کیفی ہے لیکن چونکہ دوربینی کے باعث اس کے مدنظر آفاق ہے نہ کہ انفس۔ اس لئے یہ سیر بھی آفاق کی طرف منسوب ہے۔ اس سیر کے تمام ہونے کو جو آفاق کی طرف منسوب ہے سیر الی اللہ کا تمام ہونا مقرر کیا ہے۔ اور فنا کو اس سیر پر موقوف رکھا گیا ہے اور اس سیر کو سلوک سے تعبیر کیا گیا ہے(۴۳۹)۔ سالک کا اپنے وجود سے باہر عالم مثال اور زمین و آسمان میں رب کائنات کے انوار اور تجلیات کا مشاہدہ کرنا اور اس ذات کی محبت کے علاوہ ہر چیز کی محبت سے کنارہ کرنا، دنیا کی لذتوں کو ترک کرنا اور خدا کے علاوہ ہر کسی کو فراموش کرنا اس کو سیر آفاقی کہتے ہیں۔(۴۴۰)
سیرانفسی:
سیر انفسی جذب سے طے ہوتی ہے جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے دل سے تلاش کرنا ۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی سیر کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے اور نہایت کا اندراج ابتداء میں اسی طریقہ کا خاصہ ہے(۴۴۱)۔ جذب کا معنی کشش کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا بندے کو اپنی طرف کھینچ لینا۔ مجذوب اس کو کہتے ہیںجس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا جذبہ طاری ہو جائے کہ بلا کسب و مجاہدہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے باطنی مقامات طے ہو جائیں اور واصل باللہ ہو جائے۔ سالکین کو وصول الی اللہ پہلے حاصل ہو جائے اور بعد میں شوق عبادت اور ذوق ریاضت پیدا ہو اس طریقے کو جذب کہتے ہیں اور ایسے سالک کو مجذوب سالک کی منازل آسانی کے ساتھ جلدی طے ہو جاتی ہیں(۴۴۲)۔ سیر انفسی فنائے نفس سے حاصل ہوتی ہے ، جذبہ سلوک پر مقدم ہے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں جذبہ سے دونوں سیریں طے ہو جاتی ہیں اس سلسلہ کے حضرات پہلے اسم ذات کا ذکر کرواتے ہیں اور انفس کی گرفتاری سے نجات دلاتے ہیں اور کہتے ہیں سیر آفاقی بھی انفسی کے ضمن میں طے ہو جاتی ہیں۔(۴۴۳)
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں سیر انفسی میں بقابا للہ کا مقام ثابت ہے اور اس مقام میں سلوک کے بعد جذبہ کا حاصل ہونا جانتے ہیں چونکہ سالک کے لطائف سیر اول میں تزکیہ پا چکے ہیں اور بشریت کی کدورتوں سے صاف ہو جاتے ہیں اس لئے یہ قابلیت پیدا کر لیتے ہیں کہ اسم جامع جو اس کا رب ہے کے ظلال و عکس لطائف کے آئنوں میں ظاہر ہوں اور یہ لطائف اس اسم جامع کی جزئیات کے تجلیات و ظہورات کے مظہر اور مورد ہیں۔ اس سیر کو سیر انفسی اس لئے کہتے ہیں کہ انفس اسمائے کے ظلال و عکوس کے آئنے میں نہ یہ کہ سالک کا سیر نفس میں ہے جیسے کہ سیر آفاقی میں گزرا ہے کہ با اعتبار آئنہ ہو کے اس سیر کو سیر آفاقی کہا ہے نہ یہ کہ سیر آفاق میں ہے۔ اس سیر میں در حقیقت انفس کے آئنوں میں اسماء کے ظلال کی سیر ہے۔ اس لئے اس سیر کو سیر معشوق فی العاشق بھی کہتے ہیں(۴۴۴)۔ اپنے نفس کی محبت سے سالک کا آگے گزر جانا برے اخلاق کا اخلاق حسنہ میں تبدیل ہو جانا، اپنے وجود میں انوار اور تجلیات اور اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کرنا سیر انفسی ہے۔(۴۴۵)
سلوک نقشبندی کی سیر کی ابتداء:
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ نے بر خلاف دوسرے سلسلوں کے مشائخ کے اس سیر کی ابتدائعالم امر سے اختیار کی ہے اور عالم خلق کی سیر بھی اس سیر کے ضمن میں طے ہو جاتی ہے اس واسطے طریقہ نقشبندیہ سب طریقوں سے اقرب ہے یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان کی ابتداء میں مندرج ہے۔(۴۴۶)
آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں اور اس طریقہ میں جذبہ سلوک پر مقدم ہے اور سیر کی ابتداء عا لم امر سے ہے برخلاف اکثر دوسرے طریقوں کے کہ ان کی سیر کی ابتداء عالم خلق سے ہے اور اس طریق میں سلوک کی منزلیں جذبہ کے مراتب طے کرنے کے ضمن میں قطع ہو جاتی ہیں اور عالم خلق کی سیر عالم امر کے سیر میں میسر ہو جاتی ہے ۔ پس اگر اس اعتبار سے بھی کہیں کہ اس طریق میں انتہا ابتدا ء میں درج ہے تو گنجائش رکھتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ابتد اء کی سیر اس طریق میں انتہا کے سیر میں مندرج ہے نہ یہ کہ انتہا سے ابتداء کی سیر کیے لئے اتر آتے ہیں اور نہایت کی سیر تمام کرنے کے بعد بدایت کی سیر کرتے ہیں۔(۴۴۷)
سیر قدمی اور سیر نظری:
جب کوئی سالک اپنے شیخ کامل کی صحبت اور توجہات کے فیض سے سلوک کی منازل طے کرتا ہے اور لطائف خمسہ میں ذکر کرتا ہے تو ان بری خصلتوں کی اصلاح ہو کر عالم امر کے لطائف نورانی ہو کر اپنے اصول میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور ان کی کشش اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے اور مقامات سلوک جن میں توبہ، زہد، توکل، قناعت، عزلت، ہمیشگی ذکر، توجہ، صبر، مراقبہ اور رضا شامل ہیں ان کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کو اپنی حقیقت کے موافق اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتاہے اس کو سیر قدمی یا وصول کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنے مقام سے آگے سالک کی سیر قدمی نہیں ہوتی البتہ سیر نظری ہوتی ہے جس کو حصول کہا جاتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں لہٰذا سیر قدمی جس کو وصول کہتے ہیں اس کا تعلق مقام سے ہے جو اصل میں سالک کا مبدا ء تعین ہے اور سیر نظری جس کو حصول کہتے ہیں اس کا تعلق حال سے ہے جو سلوک میں بہت ہی کاملین کا مقام ہے۔(۴۴۸)
سیور اربعہ:
سلوک کی منازل طے کرنے کے لئے اولیاء کرام ؒ نے سیر کو چار سیروں میں تقسیم کیا ہے اور یہ سیریں علمی ہیں کیونکہ سیر حرکت علمی کیا نام ہے ، حرکت عینی حرکت جسمی کا نام نہیں ہے۔ سیر باطنی کی چار اقسام ہیں؛
۱) سیر الی اللہ ۲) سیر فی اللہ
۳) سیر عن اللہ باللہ ۴) سیر فی الاشیاء باللہ
پہلی دوسیریں عروجی ہیں اور دوسری دو سیریں نزولی ہیں۔ سیر عروجی ہر سالک کی ایک خاص مقام تک ہوتی ہے۔ جو اس کا مبداء تعین ہے اور سیرنزولی اس لحاظ سے کامل ہوتی ہے جس قدر اس کی سیر عروجی کامل ہوتی ہے اور عروج و نزول کی کاملیت سنت رسول ﷺ کی اتباع اور شریعت کے احکامات کی عمل کی پیروی پر موقوف ہے(۴۴۹)۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں، سیر اول سیر چہارم کے مقابل ہے اور سیر تیسری سیر دوسری کے مقابلہ میں ہے۔ اور سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ نفس ولایت کے حاصل ہونے کے واسطے ہیں جو فنا و بقا سے مراد ہے۔ اور سیر تیسری اور چوتھی مقام عبدیت کے حاصل ہونے کے واسطے ہیں۔ جو انبیاء و رسل علیھم الصلوۃ السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور کامل تابعداروں کو بھی ان بزرگوں کے مقام سے کچھ حاصل ہوتا ہے(۴۵۰)۔ جیسا کہ فرمان الہٰی ہے؛
{قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ} (۴۵۱)
ترجمہ؛یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور میرے تابعداد بصیرت پر ہیں
سیر الی اللہ:
حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں سیر الی اللہ سے مراد حرکت علمی ہے جو علم اسفل سے علم اعلیٰ تک جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ تک حتی کہ ممکنات کے علوم طے کرنے اور کلی طور پر ان کے زائل ہو جانے کے بعد واجب تعالیٰ کے علم تک منتہی ہو جاتی ہے اور یہ حالت وہ ہے جس کو فنا سے تعبیر کی گئی ہے(۴۵۲)۔ سالک جب علم اسفل جس کو ظلال اسماء و صفات الٰہی کہتے ہیں سے علم اعلیٰ جس کو اسماء و صفات الٰہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی طرف سیر کرتا ہے تو ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی اصل کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس میں فانی جانتا ہے یہاں تک کہ اپنا کوئی اثر اور اپنی کوئی اصلیت نہیں پاتا اور صرف وجود میں اصل ہی کا مشاہدہ کرتا ہے اس دائرہ ظلال کی سیر کا نام سیر الی اللہ ہے جو کہ ولایت صغریٰ ہے جو اولیاء کرام کی ولایت کا دائرہ ہے۔ اس دائرہ ولایت تک ختم نہیں ہو سکتی اور سالک اس قدر سیر کرتا ہے جس قدر اس کا اس سیر میں حق ہے۔ یہاں فنائے کلی حاصل ہو جاتی ہے۔(۴۵۳)
سالک کی اسی کیفیت کا نام عشق ہے اور عاشق گرم رو ہوتا ہے جس کی دوستی معشوق پراثر انداز ہوتی ہے اور بعض دفعہ معشوق میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ معشوق کا نام بھی بھول جاتا ہے ۔ سالک جب اس مقام پر ہوتا ہے تو وہ مقام استغرا ق حاصل کر لیتا ہے اور اپنے وجود سمیت تمام اشیاء کو سوائے اللہ تعالیٰ کے بھول جاتا ہے۔ جب وہ اس حقیقت کو پالیتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی یاد رکھتا ہے اور یہی سیر الی اللہ کا انتہائی مقام ہے اور اب تصوف کی پہلی منزل عالم توحید واحدانیت کا پہلا قدم اور درجات خاصہ کا آغاز ہو گا۔(۴۵۴)
فنا بھی دو قسم کی ہے ایک فنائے جزبی اور دوسری فنائے حقیقی، فنائے جزبی کی علامت یہ ہے کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں سالک کو جو ابتدائی جذبہ حاصل ہوتا ہے تو سالک کو جو جذب، مستی اور خلقت سے دور رہنا افعال و صفات سے فانی ہونا اور خواہشات لا حاصل سے دور رہنا حاصل ہوتا ہے۔ یہ وقتی ہوتا ہے مگر جب ہوش میں آتا ہے تو اصلی حالت میں لوٹ جاتا ہے مگر فنائے حقیقی میں سالک اپنے آپ کو بالکل معدوم جانتا ہے اور افعال و صفات کو پورے یقین کے ساتھ خدا کے سپرد کر دیتا ہے اور اس حالت سے واپس نہیں لوٹتا۔(۴۵۵)
سیر فی اللہ:
حضرت مجدد الف ثانیؒ اس سیر کے بارے میں اپنے مکتوبات میں ارشاد فرماتے ہیں سیر فی اللہ سے مراد ووہ حرکت علمی ہے جو مراتب وجوب یعنی اسماء و صفات و شیون و اعتبارات و تقدیسات و تنریہات میں ہوتی ہے اور اس مرتبہ تک منتہی ہوتی ہے جس کو کسی عبارت سے تعبیر نہیں کر سکتے اور نہ کسی اشارہ سے بیان کی جا سکتی اور نہ کسی نام سے اس کا نام رکھا جاسکتا ہے نہ کسی کنایہ سے ادا ہو سکتی ہے اور نہ اس کو کوئی عالم جانتا ہے اور نہ مدرک اس کا ادراک کر سکتا ہے اور اس سیر کانام بقا رکھا گیا ہے(۴۵۶)۔ سیر فی اللہ اصل میں بقا کانام ہے جو فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے فنا کے مقام کے بعد اگر سالک پر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل ہو اور سنت و شریعت پر استقامت اختیار کرے تو سالک کو اسماء و صفات کل دائرہ میں جو ظلال کے دائروں کی اصل ہے اس کی سیر نصیب ہوتی ہے اور سالک اللہ تعالیٰ کی صفات و اسماء شیونات و اعتبارات، تقدیسات و تنزیہات میں سیر کرتا ہے۔ یہ سیر ولایت کبریٰ میں واقع ہوتی ہے جو انبیاء کرام علیھم السلام کی ولایت ہے اور عالم امر کے تمام لطائف اس دائرہ کی انتہا ہیں اور یہ سیر سیر آفاقی اور سیر انفسی سے بہت دور اور ورا الورا ہے۔ اس مقام پر نفس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اس مقام پر شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور سالک کو اسلام کی حقیقت کا علم ہو جاتا ہے اور نفس مطمئنہ جس کو جنت میںداخل ہونے کا حکم ہوگا وہ نصیب ہوتا ہے۔ اور سالک مقام رضا کی طرف گامزن ہو جاتا ہے(۴۵۷)۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔
{أَفَمَن شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّہِ } (۴۵۸)
ترجمہ؛ پس جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کے لئے کھول دیا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے
سیر فی اللہ کا نام ہی وصول ہے سیر الی اللہ میںعاشقوں کی سیر معشوق کی جانب ہوتی ہے اور سیر فی اللہ میںمعشوق کی سیر عاشق کی جانب ہوتی ہے۔ یہ اوصاف بشریت کے فنا ہونے اور بے اختیاری حاصل ہونے سے میسر آتے ہیں۔ فنا و بقا کے حال کو سب سے پہلے ابو سعید احمد بن عیسی الخراز (م۲۷۷ھ) نے بیان کیا تھا۔ آپ نے فرمایا فنا سے مراد سیر فی اللہ کی انتہا ہے اور بقا سے مراد سیر فی اللہ کی ابتداء ہے سیر فی اللہ اس وقت مکمل ہوتی ہے جب انسان کو مطلق فنا کے بعد جس کا مطلب فناء ذات و فنائے صفات ہے حقانی وجود حاصل ہو جائے۔ اور اس حقانی وجود کے ساتھ اوصاف الہٰی سے متصف ہو جائے۔(۴۵۹)
سیر عن اللہ باللہ:
سیر عن اللہ باللہ کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں سیر عن اللہ باللہ جو کہ علم اعلیٰ سے علم اسفل کی طرف نیچے آتی ہے اور اسفل سے اسفل کی طرف ہوتی ہے یہاں تک کہ ممکنات کی طرف پس پا رجوع کرتی ہے اور تمام مراتب وجوب کے علوم سے نزول کرتے ہیں اور ایسا عارف اللہ کو اللہ کے ساتھ بلانے والا اور اللہ کی طرف سے اللہ کے ساتھ پھیرنے والا اور وہ واصل مہجور اور وہ قریب بعید ہوتا ہے(۴۶۰)۔ سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ یعنی مقام فنا اور بقا کے حصول کے بعد سالکین دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ پہلے گروہ کو مستھلکین کہتے ہیں۔ یہ وہ سالک ہوتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو گئے اور جمال الہٰی کے مشاہدہ میں ہی رہ گئے۔ دوسرا وہ گروہ جن کو راجعین الی الدعوۃ کہتے ہیں یہ وہ سالک ہوتے ہیں جن کو واپس مقام قلب میں لایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم صادر ہوتا ہے کہ میرے بندوں کو اسی راستہ سے جس سے تم خود آئے ہو میری طرف لائو اور مخلوق کے ساتھ میل جول رکھو تمہارا مشاہدہ اب بند نہیں ہو گا اور آیت مبارکہ؛
{قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ} (۴۶۱)
ترجمہ؛ یعنی آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔
کے تحت سیری عاشق کی معشوق کی طرف تھی اور سالک عاشق اور ذات باری تعالیٰٰ معشوق اب سیر معشوق کی عاشق کی طرف ہے۔ اسی آیت کے دوسرے حصے یحببکم اللہ سے مشرف ہو جاتا ہے کیونکہ سالک تعلیم و تلقین اور ترغیب سے مریدین کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اور اس تعلیم کے دوران سالک مشاہدہ الہٰی سے مشرف ہوتا رہتا ہے تو اس حالت میں سالک ہادی کا ہر فعل مشاہدہ کا باعث ہے۔ اس عظیم نعمت کے مالک کو اگر دنیا کی طرف لانا چاہیں اور مخلوق کو اس کے وجود کی برکت سے نفسانی اندھیروں سے باہر لانا چاہیں تو تصوف کی اصطلاح میںیہ سیر عن اللہ باللہ ہے۔ اس کی توجہ مخلوق کی طرف ہونے سے بھی وہ مخلوق کے ساتھ کسی قسم کی گرفتاری میں نہیں ہوتا۔ اگرچہ ظاہر میں وہ مبتدی کا شریک حال ہے مگر گرفتاری و عدم گرفتاری میں فرق ہے اور خلق کی طرف توجہ کرنا اس متنہی کے حق میں بے اختیاری ہے اور اس کی رغبت نہیں بلکہ اس کی توجہ رضاء الہٰی ہے جبکہ مبتدی اس میں اپنی ذاتی رغبت اور اللہ تعالیٰ کی نا رضا مندی ہے پس اس سیر میںسالک کوعلم اعلیٰ سے علم اسفل کی طرف اور اسفل سے اسفل تر کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ واپس ممکنات کی طرف رجوع کرتا ہے۔(۴۶۲)
سیر فی الاشیاء باللہ:
اس سیر کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں؛ چوتھی سیر اشیا میں ہے یکے بعد دیگرے اشیاء کے علوم حاصل ہونے سے مراد ہے۔ بعد اس کے تمام اشیاء کے علوم سیر اول میں زائل ہو جائیں(۴۶۳)۔ یہ سالک کی چوتھی سیر ہے جو رجوع کے بعد اشیاء میں ہوتی ہے اور مقام فنا یعنی سیر اول میں جو اشیاء کے علوم بالکل مٹ گئے تھے۔ اب دوبارہ یکے بد دیگرے حاصل ہو پاتے ہیں۔ اور سالک ظاہری طور پر مکمل مخلوق کے ساتھ مل جل جاتا ہے مگر حقیقت میں اس کا دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے۔ سالک کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے باطن میں ذات حق سے واقف ہوتا ہے اور ظاہر میں وہ لوگوں میں مشغول ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی عورت نے اپنے سر کے اوپر کئی مٹکے اوپر نیچے رکھے ہوں اور ظاہری طور پر وہ دوسروں کے ساتھ باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ یعنی اس کی زبان مصروف ہوتی ہے ، پائوں سے چل رہی ہوتی ہے آنکھیں دیکھ بھی رہی ہوتی ہیں کان سن بھی رہے ہوتے ہیں،مگر اس کی رفتار بھی کم نہیں ہوتی اور اس کا اصل مقصد مٹکے کو نہ گرنے دینا ہے۔ اسی طرح اس مقام پر سالک دنیا کے ساتھ رہ کر بھی اپنی توجہ ذات باری تعالیٰ کی طرف رکھتا ہے۔(۴۶۴)
۴۴۳۔ مسعود الرحمٰن ,منہاج سلوک، ص ۹۔
۴۴۴۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر دوم، مکتوب نمبر ۴۲۔
۴۴۵۔ محمد سعید احمد،مجددی،شرح مکتوبات ، جلد دوم، ص ۴۹۰۔
۴۴۶۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۵۸۔
۴۴۷۔ ایضاً، مکتوب نمبر ۲۲۱۔
۴۴۸۔ زوا رحسین ،شاہ، ،عمدۃ سلوک، ص ۲۵۲۔
۴۴۹۔ محمد سعید احمد،مجددی،شرح مکتوبات، جلد اول، ص ۲۷۶۔
۴۵۰۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۴۴۔
۴۵۱۔ “سورۃ الیوسف، ۱۲:۱۰۸”
۴۵۲۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۴۴۔
۴۵۳۔ محمد سعید احمد،مجددی،شرح مکتوبات ، جلد اول، ص ۲۷۷۔
۴۵۴۔ محمد پارسا،نقشبندی ،رسالہ قدسیہ ،( مشمول :رسائل نقشبندیہ ،اقبال احمد فاروقی،ص ۵۳۔
۴۵۵۔ مکان شریفی ، شاہ حسین ؒ، مرآۃ المحققین، ص ۸۳۔
۴۵۶۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۴۴۔
۴۵۷۔ زوا رحسین شاہؒ،عمدۃ السلوک، ص ۲۲۱۔
۴۵۸۔ “سورۃالزمر: ۳۹: ۲۲”
۴۵۹۔ محمد پارسا،نقشبندی ،رسالہ قدسیہ ،( مشمول :رسائل نقشبندیہ ،اقبال احمد فاروقی،، ص ۷۳۔
۴۶۰۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۴۴۔
۴۶۱۔ “سورۃآل عمران ۳: ۳۱”
۴۶۲۔ محمد سعید احمد،مجددی،شرح مکتوبات امام ربانی، جلد اول، ص ۲۸۰۔
۴۶۳۔ مجدد الف ثانی، احمدبن عبد الاحد، سرہندی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم اردو: قاضی عالم دین نقشبندی )،دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۴۴۔
۴۶۴۔ زوا رحسین ،شاہ، عمدۃ السلوک، ص ۲۲۷۔