سلسلہ چشتیہ

سلسلہ چشتیہ کا آغاز و ارتقاء:
تمہید:
تصوف کے تمام سلاسل باقاعدہ شجرہ بیعت کے حامل ہیں جو کسی صحابیؓ کے واسطے سے حضرت محمدﷺ تک پہنچتے ہے۔معرفت کے تمام سلاسل علم و عرفان کے پیشوا حضرت امام علیؓ کی طرف منسوب ہیں سوائے سلسلہ نقشبندیہ کے جو کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے توسل سے رسول اکرم ﷺ تک جاتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ بھی حضرت علیؓ کی طرف منسوب ہے جنھوں نے علم و معرفت کا یہ خزینہ حضرت محمدﷺ سے حاصل کیا تھا۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو حکمت کا دروازہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
((اَنَادَارُا لحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ))(۱)
’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
((اِنَّ عَلِیًّا مِنِّی وَاَنَا مِنْہُ وَھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ مِن بَعْدِی)) (۲)
’’بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں حضرت علیؓ کو علم و معرفت کا محور قرار دیا گیا۔حضرت شاہ ولی اللہ ؒ مشائخ چشت کی سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ:
’’ امام الاولیاء حضرت علیؓ نے رسول اکرم ﷺ سے معرفت الٰہی کا سب سے اعلیٰ ، قریبی اور آسان راستہ دریافت فرمایا جس پر عمل کرنا تمام انسانوں کے لیے بھی مشکل نہ ہو تو حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تنہائی میں اللہ کے ذکر کو اپنا معمول بنالو۔‘‘حضرت علیؓ نے استفسار فرمایا کہ ذکر کیسے کیا جائے تو حضرت محمدﷺ نے حضرت علیؓ کو آنکھیں بند کرنے کو کہا اور تین بار سننے کو کہا ۔آپ ﷺ نے تین بار لا الہ الا اللہ کا ذکر کیا اور حضرت علیؓ سنتے رہے، پھر حضرت علیؓ نے تین بار لا الہ الا اللہ کہا اور حضرت محمدﷺ اس کو سنتے تھے ۔ یہی طریقہ جو حضرت علیؓ نے حضرت محمدﷺ سے سیکھا تھا ۔ حضرت حسن بصریؒ کو سکھایا اور اسی طرح سلسلہ چشتیہ کے تمام مشائخ اپنے مرید ین کو یہ طریقہ بتاتے آئے ہیں۔‘‘(۳)
اس بات پر تمام علما ء اور صوفیاء کرام کا اجماع ہے کہ حضرت علیؓ کو حضور اکرم ﷺ سے مخصوص علم معرفت حاصل تھا جو انھوں نے حضرت حسن بصریؒ تک منتقل کیا۔
حضور اکرمﷺ پر سلسلہ رسالت ختم ہوا اور حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد تزکیہ نفس بھی تھا تا کہ باطن کی اصلاح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ ہو سکے ۔ حضور اکرمﷺ کے بعد یہ کام مشائخ عظام کے سپرد ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے مشائخ نے حضور اکرم ﷺ کے بعد روحانی فیض کے ذریعے تزکیہ نفس کے اس فریضہ کو اس طریقے سے سرانجام دیا کہ لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پیدا ہوئی اور وہ گناہوں سے نفرت کرنے لگے۔
اس سلسلہ کو چشتی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق شامیؒ جب حضرت خواجہ علوممشاد دینوریؒ کی خدمت اقدس میں فیض روحانی کی طلب سے بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ علو ممشاد دینوریؒ نے آپ سے آپ کا نام پوچھا توآپ کے شیخ نے ارشاد فرمایا کہ آج سے تم کو ابو اسحاق چشتی کہا جائے گا ۔ اس لیے کہ اہل چشت کو تمھاری نسبت سے ہدایت ہو گی اور جو تمھارے سلسلہ سے منسلک ہو گا چشتی کہلائے گا۔(۴)
اس طرح اس سلسلہ کا مرکز چشت نام کا قصبہ بن گیا جو افغانستان کے شہر ہرات سے کچھ فاصلے پر ہے(۵)حضرت علیؓ سے حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ تک شجرہ بیعت اس طرح ہے:
حضرت علیؓ(م۴۰ھ)،حضرت حسن بصریؒ(م ۱۱۰ھ)،حضرت عبدالواحد بن زیدؒ (م۱۷۰ھ)،حضرت فضیل بن عیاض ؒ(م۱۸۷ھ)،حضرت ابراہیم بن ادھمؒ (م ۱۶۱ھ)،حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی ؒ(م۲۰۲ھ)،حضرت خواجہ ابوہبیرہ بصریؒ (م ۲۸۷ھ)، حضرت خواجہ علو ممشاد دینوریؒ (م۲۹۹ھ)،حضرت ابو اسحاق شامیؒ (م۳۲۹ھ)،حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتیؒ (م۳۵۵ھ)،حضرت خواجہ ابو محمدبن احمدؒ (م۴۱۱ھ)،حضرت سید ابو یوسف بن سمعانؒ ( م ۴۵۹ھ)،حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ (م ۵۲۷ھ)،حضرت خواجہ شریف زندنیؒ (م ۶۱۲ھ)،حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ (م ۶۱۷ھ)
حضرت علیؓ:
آپؓ کا نام مبارک علیؓ ، کنیت ابو تراب اور ابوالحسن ہے اور آپؓ کے القاب فاتح خیبر ، امیرالمؤمنین ، اسداللہ ، امام المشارق والمغارب ، امام المسلمین، ولی اللہ ، حیدر اور مرتضیٰ ہیں ۔ والد کی طرف سے آپ کا نسب علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصٰی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی اور والدہ کی طرف سے فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدالمناف ہے۔(۶)جو کہ پہلی ہاشمی خاتون تھیں جس نے اسلام قبول کیا اور جس کے ہاں ہاشمی اولاد پیدا ہوئی ۔حضور اکرم ﷺ نے فاطمہ بنت اسد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ میری ماں تھیں۔اس ماں کے بعد جس نے مجھ کو جنم دیا ۔(۷)حضرت علیؓ حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔
حضرت علیؓ کی ولادت ۱۳ رجب بمطابق ۱۷ مارچ ۵۹۹ء کو حضور اکرم ﷺ کی پیدائش کے تیسویں سال یعنی نبوت کے دس سال پہلے ہوئی۔(۸)
آپؓ نے تین دن تک ماں کا دودھ نہیں نوش فرمایا۔ پھر حضرت محمد ﷺ نے آپ کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنا منہ آپؓ کے منہ میں دے دیا۔آپؓ کافی دیر تک آنحضرتﷺ کی زبان مبارک چوستے رہے اور لعابِ دہن نبویﷺجو کہ سرچشمہ{ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی}(۹) تھا اس کا سریت ظاہری و باطنی پیتے رہے۔(۱۰)
حضرت علی ؓ چونکہ بچپن سے ہی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھے تو جب آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت آپؓ کی عمر مبارک دس سال تھی۔ آپ ؓ نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ ہر وقت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اخلاق و عادات اور عبادات میں جتنا حضرت علیؓ کو قرب حاصل ہوا وہ کم لوگوں کو ہی نصیب ہوا۔
حضرت علیؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں سے ہے۔آپؓ بیعت رضوان میں شامل ہونے کی وجہ سے اصحاب الشجرہ کہلاتے ہیں۔ جب ہجرت مدینہ ہوئی تو انصار اور مہاجرین کے درمیان مساوات اور اخوت کا رشتہ قائم ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کوا پنا بھائی قرار دیا۔آپؓ اصحاب بدر میں سے بھی ہیں جن کی خطائیں خدا تعالیٰ نے معاف کر دیں۔آپﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرہ کے ساتھ حضرت علیؓ کی شادی بھی کی۔ غزوئہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں حضرت علیؓ نے اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ ہجرت کی رات حضرت محمدﷺ نے حضرت علیؓ کو ہی اپنے بستر پر سونے کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔ دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ حضرت علیؓ کو غسل نبویﷺ کا بھی شرف حاصل ہے۔ آپؓ کا شمار چوتھے خلیفہ راشد میں بھی ہے۔
حضرت علیؓ کو ۴۰ ہجری میں رمضان کے مہینے میں نماز فجر کے دوران عبدالرحمٰن بن ملجم کے ہاتھوں سر میں شدید چوٹ آئی جس کی وجہ سے آپؓ شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے مگر رمضان کی تاریخ کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاریخ طبری(۱۱) اور طبقات ابن سعد(۱۲) کے مطابق ۱۹ رمضان اور تاریخ عالم اسلام (۱۳) سیر الصحابہ(۱۴) کے مطابق ۲۰ رمضان تاریخ ابن کثیر (۱۵) کے مطابق آپؓ کی شہادت کا دن ۱۷ رمضان بروز جمعہ ہے۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت حسنؓ نے پڑھائی اور کوفہ میں جامع مسجد کے قریب دفن کیے گئے۔(۱۶)
حضرت حسن بصریؒ:
آپ کا نام حسن اور کنیت ابو محمد ابو سعید اور ابو النصر تھی۔ آپ کے والد کا نام خزینۃ الاصفیاء میں موسیٰ راعی(۱۷) اور تاریخ مشائخ چشت میں یسار(۱۸) لکھا ہے جو کہ صحابی رسول حضرت زید بن ثابتؓ کے آزاد کردہ غلام تھے ۔آپ کی والدہ کا نام بی بی خیرہ تھا جو ام المؤمنین حضرت اُم سلمہؓ کی باندی تھیں۔آپ کے والد نے ۱۲ ہجری میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔(۱۹)آپ کی ولادت حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں وصال فاروقی سے دو سال قبل مدینہ منورہ میں ہوئی۔(۲۰)جس دن حضرت حسن بصریؒ پیدا ہوئے آپ کی والدہ آپ کو حضرت عمرؓ کی خدمت میں لے گئیں جنھوں نے آپ کو دیکھ کر فرمایا یہ خوب صورت بچہ ہے اس کا نام حسن رکھو۔(۲۱) آپ کی تعلیم و تربیت میں حضرت امِ سلمہؓ کا بڑا کردار ہے جب آپ شیر خوار تھے والدہ کے مصروف ہونے کی وجہ سے آپ رو رہے تھے۔ حضرت امِ سلمہؓ نے اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے دی ۔ اللہ کی حکمت سے چند قطرے دودھ کے آپ کو پینے نصیب ہوئے جو بعد میں تمام برکتوں اور کرامتوں کا سبب بنے۔(۲۳)
حضرت امِ سلمہؓ نے آپ کے لیے دعا فرمائی تھی کہ خدا مسلمانوں کا رہبر بنائے سو ایسا ہی ہوا۔(۲۴) حضرت حسن بصریؓ شروع میں جواہرات کا کاروبار کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کا نام موتی بیچنے والا تھا۔(۲۵)
حضرت حسن بصریؒ نے خرقۂ خلافت حضرت علیؓ سے حاصل کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہی خرقۂ خلافت ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو معراج کی رات عنایت فرمایا تھا ۔حضور اکرم ﷺ نے یہ حضرت علیؓ اور انھوں نے حضرت حسن بصریؒ کو عطا فرمایا۔(۲۶)
آپ کے بہت سے خلفاء تھے جن میں سے خواجہ عبدالواحد بن زید ، ابن زرین ، حبیب عجمی اور شیخ محمد واسع رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ہیں جو آپ کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھے اور تصوف کے مختلف سلاسل کے پیشوا بنے۔(۲۷)حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی آپ کے خلفاء میں سے تھیں۔ حضرت حسن بصریؒ ہفتہ میں ایک دن وعظ کیا کرتے تھے اور جس دن رابعہ بصری ؒشریک نہ ہوتیں وعظ نہ کرتے لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا ’’ہاتھی کے برتن کا شربت چیونٹیوں کے برتن میں کیسے سما سکتا ہے۔(۲۸)
حضرت حسن بصریؒ نے ہشام بن عبدالملک بن مروان کے دورِ حکومت میں ۱۱۰ ہجری میں نواسی ۸۹ سال کی عمر میں وفات پائی اور بصرہ میں دفن ہوئے۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ مسکرا رہے تھے۔(۲۹) وفات کے مہینے اور دن میں اختلاف ہے۔ تاریخ مشائخ چشت میں چار محرم اور یکم رجب (۳۰) مرأٰۃ الاسرار (۳۱) اور انوار العاشقین (۳۲) میں یکم رجب اور خزینۃ الاصفیا (۳۳) میں چار محرم لکھی ہے۔
حضرت عبدالواحد بن زیدؒ:
آپ کا نام عبدالواحد بن زید اور کنیت ابو الفضل تھی ۔آپ صاحب کرامت اور برکات کا مجموعہ تھے اور آپ کو امام الاولیاء تسلیم کیا جاتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے اہم مشائخ میں شامل ہیں۔ آپ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ آپ تین دن کے بعد روزہ افطار کرتے وہ بھی تین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے ۔ تجرید و تفرید میں ایسے کامل تھے کہ جو کچھ ملتا خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے۔(۳۴)
حضرت عبدالواحد بن زیدؒ نے خرقۂ خلافت حضرت حسن بصریؒ سے حاصل کیا۔ علوم ظاہری میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہؒ اور حضرت حسنؓ سے علم کی تکمیل حاصل کی ۔ بیعت ہونے سے چالیس سال قبل آپ مجاہدات میں مشغول رہے۔(۳۵) حضرت کمیل بن زیادؒ سے بھی آپ نے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔(۳۶)
حضرت عبدالواحد بن زید ؒ کے بہت سے خلفاء تھے جنھوں نے آپ سے فیضِ روحانی حاصل کیا جن میں حضرت خواجہ فضیل بن عیاض ، خواجہ ابو الفضل بن زرین اور خواجہ ابو یعقوب رحمتہ اللہ علیہم زیادہ مشہور ہیں۔(۳۷)
حضرت عبدالواحد بن زیدؒ کی سنِ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ انوار العاشقین میں آپ کی وفات ۲۷ صفر ۱۷۶ ہجری میں (۳۸) خزینۃ الاصفیاء میں ۲۷ صفر ۱۷۰ہجری(۳۹) مرأۃ الاسرار میں ۱۷۱ہجری (۴۰) اور تاریخ مشائخ چشت میں ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۷۸، ۱۷۶ اور ۱۸۶ ہجری بیان کی گئی ہے اور آپ کو بصرہ میں دفن کیا گیا تھا۔(۴۱)
حضرت خواجہ فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر التمیمیؒ:
آپ کا نام فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر التمیمی اور کنیت ابوعلی ، ابو الفضل اور ابوالفیض تھی۔ آپ کا اصل وطن کو فہ تھا۔(۴۲)آپ کی پیدائش کہاں ہوئی ۔ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ تاریخ مشائخ چشت میں سمر قندر یا بخارا(۴۳) مرأۃ الاسرار میں خراسان ، مرو اور سمر قند(۴۴) خزینۃ الاصفیاء میں آپ کے آبائو اجداد کا علاقہ کوفہ اور آپ کی پیدائش سمرقند یا بخارا (۴۵) نفحات الانس میں خراسان ، مرو ، سمر قند ، کوفہ اور بخارا(۴۶) لکھا گیا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے خرقۂ خلافت حضرت عبدالواحد بن زید ؒسے حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ آپ نے شیخ المشائخ ابی عیاض بن منصور بن محمد سلمٰی کوفی سے بھی خلافت حاصل کی جن کا روحانی فیض حضرت ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے۔ آپ ہمیشہ روزہ کی حالت میں رہتے اور پانچ دن کے بعد افطار کرتے۔ ہر روز پانچ سو نوافل ادا کرتے اور ہر روز دو قرآن مجید ختم کرتے ۔ (۴۷)
آپ کے خلفاء میں ابراہیم بن ادہم ،شیخ محمد شیرازی ،خواجہ بشر حافی ، شیخ ابو رجا عطاری اور خواجہ عبداللہ السیاری رحمتہ اللہ علیہم اجمعینشامل ہیں۔(۴۸)
حضرت فضیل بن عیاضؒ کی وفات ربیع الاول ۱۸۷ہجری کو حرم شریف میں ہوئی اور مکہ مکرمہ میں جنت المعلٰی میں دفن ہوئے ۔ آپ کا مزار حضرت خدیجہؓ کے مزار کے قریب ہے۔ آپ نے سورۃ الفاتحہ سنی اور ایک نعرہ مار کر جان دے دی۔ آپ کے انتقال پر آسماں پر سناٹا چھا گیا۔(۴۹)
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ:
سلطان التارکین ، مقرب رب العالمین ، تارک مملکت دنیا ، صاحب سلطنت ، سلطان السالکین حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ سلسلہ چشتیہ کے اہم مشائخ میں سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب ابراہیم بن ادھم بن سلیمان بن ناصر بن عبداللہ بن خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطابؓ ہے۔(۵۰) آپ کی ولادت بلخ میں ہوئی۔(۵۱)آپ نے بادشاہت کو چھوڑ کر فقر کو اختیار فرمایا ۔ پانچ دن تک روزہ رکھتے اور گھاس وغیرہ سے افطار فرماتے۔ کپڑے اکثر پیوند شدہ پہنتے۔(۵۲)
حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ نے خرقۂ خلافت حضرت خواجہ فضیل بن عیاضؒ سے حاصل کیا۔ ان کے علاوہ خواجہ عمر بن موسٰی ، حضرت امام باقر ، شیخ منصور سلمٰی اور حضرت خواجہ اویس قرنیؒ سے بھی آپ نے فیض حاصل کیا تھا۔(۵۳)آپ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی مجلس میں بھی رہے ہیں۔ ایک دفعہ آپ امام صاحب کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ لوگوں نے آپ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا تو امام صاحب آپ کو ’’سیدنا‘‘ کہہ کر مخاطب ہوئے اور اپنے پاس ان کو جگہ دی۔ جب لوگوں نے سبب پوچھا تو امام صاحب نے ارشاد فرمایا کہ آپ کا سارا وقت یادِ الٰہی میں گزرتا ہے جبکہ ہم دنیاوی کاموں میں بھی مشغول ہوتے ہیں۔(۵۴) حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں ’’ابراہیم تمام علوم کی چابی ہیں۔‘‘(۵۵)
آپ کے خلفاء میں سب سے زیادہ مقبول حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی ؒاور شفیق بلخی ؒ تھے۔(۵۶)
آپ کی وفات پر پورے عالم میں یہ آواز سنی گئی کہ آج دنیا کا امن فوت ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کے انتقال کی اطلاع عام ہوئی۔ آپ کے گمشدہ ہونے کی وجہ سے آپ کے انتقال کے سال اور مزار کی جگہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(۵۷)مرأۃ الاسرار میں آپ کی وفات ۱۶۱، ۱۶۶، ۱۸۷ ہجری اور مزار شام یا بغداد میں تذکرۃ الاولیاء میں بھی آپ کا مزار شام اور بغداد ، تاریخ مشائخ چشت میں آپ کی عمر ۱۰۲ سال اور مزار شام میں حضرت لوط ؑ کے مزار کے ساتھ اور سال وفات ۱۶۱ ، ۱۶۲ ہجری ۔ نفحات الانس میں سال وفات ۱۶۱، ۱۶۲ ، ۱۶۶ ہجری اور مزار شام میں انوارالعاشقین اور خزینۃ الاصفیا میں ۲۸ جمادی الاول ۲۶۷، ۲۶۱،۲۸۰ ہجری لکھا ہے۔
حضرت خواجہ حذیفہ مرعشیؒ:
اولیاء کے بادشاہ ، فقراء کے مقتدا ، شیخ العصر حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی ؒسلسلہ چشتیہ کے اہم مشائخ میں سے ہیں۔ ان کا لقب سدید الدین تھا۔ سات سال کی عمر میں قرأت کے سات طریقوں سے حافظ بن گئے اور سولہ سال کی عمر میں تمام ظاہری علوم میں مہارت حاصل کر لی اور علم سلوک میں بہت سی کتب لکھیں۔ آپ چھ دن تک روزہ افطار نہ کرتے اور فرماتے تھے کہ اہلِ دل کی غذا لاالہ الا اللہ ہے۔(۵۸)
حضرت حذیفہ مرعشیؒ نے حضرت خضرؑ کی ہدایت کے مطابق حضرت سلطان ابراہیم بن ادھم ؒسے خرقۂ خلافت حاصل کیا اور چھ مہینے میں سلوک کی تمام منازل طے کر لیں ۔جب حضرت ابراہیم بن ادھم ؒنے آپ کا زہد دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور مقام تکمیل کی بشارت عطا فرمائی اور خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔(۵۹)
آپ کے بہت سے خلفاء تھے جو بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے جن میں سب سے مقبول حضرت خواجہ ابو ہبیرہ بصری ؒہیں۔ امام شافعیؒ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آپ کے خلفاء میں سے ہیں۔(۶۰)
آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ خزینۃ الاصفیاء میں ۲۵۲ھ اور ۲۷۶ھ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے نو سال بعد اور تاریخ مشائخ چشت میں ۲۰۲ اور ۲۰۷ ہجری لکھی ہے۔ تاریخ مشائخ چشت ،انوار العاشقین اور مرأۃ الاسرار میں تاریخ وفات ۱۴ شوال بتائی گئی ہے۔
حضرت خواجہ ابوہبیرہ بصریؒ:
اولیائکے سردار ، شریعت کے معین و مددگار ، طریقت کے استاد اور سالکین کے رہنما خواجہ ابو ہبیرہبصری ؒبعض کے نزدیک ان کا نام ہبیرہؒ ہی ہے۔آپ کا لقب امین الدین تھا۔ بصرہ میں ۱۶۷ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۷ سال کی عمر میں قرآن مجید کے حافظ اور تمام ظاہری علوم میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔ روزانہ دو بار قرآن مجید پڑھتے تھے۔ آپ اپنے زمانے کے علماء اور اولیاء کے سردار تھے۔(۶۱)
حضرت خواجہ ابو ہبیرہ بصریؒ مسلسل تیس سال تک ریاضت میں مصروف رہے۔ ایک روز اللہ تعالیٰ کی محبت میں رو رہے تھے کہ آواز آئی ’’ہبیرہہم نے تم کو بخش دیا ۔ مقامات کو حاصل کرنے کے لیے حذیفہ مرعشیؒ کے پاس جائو ۔آپ حضرت حذیفہ مرعشیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے مرید ہو گئے۔ تیس سال کی ریاضت کی وجہ سے آپ نے صرف ایک ہفتے کے اندر مقام قرب حاصل کر لیا اور آپ کو ایک سال کے بعد حضرت حذیفہ مرعشیؒ نے خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ جس روز آپ کو خلافت ملی شکر اور نمک کھانا بند کر دیا اور تمام لذیذ کھانے بند کر دیے اور زہد اختیار کیا۔(۶۲)
آپ کے بہت خلفاء تھے جن میں خواجہ علو ممشاد دینوری ؒسب سے زیادہ مقبول تھے۔(۶۳)
آپ نے وفات شوال کے مہینے میں ۱۲۰ سال کی عمر میں پائی مگر آپ کی وفات کے سال میں اختلاف ہے انوار العاشقین میں ۲۸۹ہجری اورخزینۃ الاصفیاء میں ۲۸۷ ہجری، جب کہ تاریخ مشائخ چشت میں ۲۸۷ ھ اور ۲۷۹ھ میں لکھا ہے اور آپ کا مزار بصرہ میں ہے۔(۶۴)
حضرت خواجہ علو ممشاددینوریؒ:
اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ ممشاد دینوری اور علی دینوری ایک ہی شخص کا نام ہے یا دو الگ الگ شخصوں کا ، کیونکہ ان کے حالات اور سال وفات ایک ہی ہے۔ اس لیے یہ دو الگ شخصیتوں کے نام ہیں۔خواجہ علو دینوری سلسلہ چشتیہ میں سے ہیں اور ممشاد دینوری سلسلہ سہروردیہ میں سے ہیں۔ اس لیے آپ کا نام خواجہ علو دینوری ہے۔(۶۵)
آپ نے خرقۂ خلافت حضرت خواجہ ہبیرہ بصری ؒ سے حاصل کیا۔جس دن انھوں نے خرقۂ خلافت پہنایا تو فرمایا : اے علو جائو تمھارا کام بھی علو (اعلیٰ) بن گیا ۔ وضو کرنے کو کہا اور جب ہاتھ پکڑ کر منہ آسماں کی طرف کیا اور کہا کہ اے اللہ علو کو درویشی عطا کر خواجہ علوؒ بیہوش ہو گئے ۔ چالیس بار ہوش آتا پھر بیہوش ہو جاتے ، آخر مرشد پاک نے اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا اور ہوش آیا تو قدموں میں گر پڑے اور فرمایا: اے علو اپنے مطلب کا دیدار تم کو ہو گیا ہے تو خواجہ علوؒ نے فرمایا جو مقام میں تیس سال ریاضتیں کر کے حاصل نہیں کر سکا ایک لمحہ میں حاصل ہو گیا۔ آپ کے شیخ نے خرقہ پہنایا اور مصلٰی پر بٹھا کر ارشاد و سلوک کی اجازت دی۔(۶۶)
آپ جنید بغدادی ؒاور حضرت سفیان ثوریؒ کے ہم عصر تھے۔ حضرت شیخ معروف کرخیؒ کے خلفاء کے پاس بھی حاضری دیتے تھے۔آپ کو چار نسبتوں سے سلسلہ معروفی سے اجازت ملی تھی ۔ خواجہ علو دینوری خلیفہ شیخ عبداللہ بن خفیف ، خلیفہ شیخ محمد رویم ، خلیفہ جنید بغدادی ، خلیفہ سری سقطی ، خلیفہ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین (۶۷)
آپ کے خلفاء میں ابو محمد خواجہ احمد بغدادی ،خواجہ اسد احمد دینوری اور خواجہ ابو اسحٰق رحمتہ اللہ علیہم اجمعینشامل ہیں۔(۶۸)
وفات کے قریب آپ کے پاس ایک بزرگ بیٹھے جنت مانگ رہے تھے تو آپ نے فرمایا : تیس سال سے جنت میرے سامنے آتی رہی مگر میں جنت کے مالک کا مشتاق ہوں۔(۶۹) آپ کی وفات کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ انوارالعاشقین میں ۱۴ محرم ۲۹۹ھ (۷۰)خزینۃ الاصفیاء میں ۲۹۸ھ (۷۱) مرأۃ الاسرار میں صرف ۱۴ محرم(۷۲)اور سال نہیں لکھا ۔ جبکہ تاریخ مشائخ چشت میں ۲۹۷، ۲۹۸ اور ۲۹۹ ہجری لکھی ہے اور آپ کا مزار دینور میں ہے۔(۷۳)
حضرت ابو اسحاق شامیؒ:
آپ سلسلہ چشتیہ کے اہم مشائخ میں سے ہیں۔ آپ کا لقب شرف الدین تھا۔ درویشوں سے الفت رکھتے تھے اور اولیاء کرام میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ آپ کی ولادت قصبہ چشت میں ہوئی۔ سات دن تک روزہ رکھتے تھے۔(۷۴)
سلسلہ چشتیہ کی شہرت کا سبب آپ ہی کی ذات ہے۔ جب آپ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے آپ سے نام پوچھا تو آپ نے اپنا نام ابو اسحاق شامی بتایا ۔ شیخ نے فرمایا آج سے تم کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے ۔ اس لیے کہ اہلِ چشت کو تمھاری وجہ سے ہدایت ملے گی اور تمھارا سلسلہ چشتیہ کہلائے گا۔ اسی دن سے آپ کا نام ابو اسحاق چشتی پڑ گیا ۔(۷۵)
مرید ہونے سے پہلے چالیس روز تک آپ نے استخارہ کیا تو غیب سے آواز آئی اے اسحاق علوممشاد دینوری کی خدمت میں جائو۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ سات سال خدمت میں رہ کر خرقہ خلافت حاصل کیا۔ ان دنوں میں اور بہت سے بزرگ چشت میں قیام فرما رہے تھے ۔ ان میں خواجہ ابو احمد ابدال چشتی ، خواجہ ابو محمد بن ابو احمد چشتی، ناصر الدین ، خواجہ ابو یوسف چشتی اور خواجہ مودود چشتیرحمتہ اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔ یہ تمام بزرگ دین کے ستون تھے اور ان کی رہنمائی میں بہت سے مرید ولایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔(۷۶)
آپ کے خلفاء میں خواجہ ابو احمد ابدال ، خواجہ ابو محمد اور خواجہ تاج الدینؒ شامل ہیں جو سلسلہ چشتیہ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔(۷۷)
حضرت خواجہ ابو اسحاق شامیؒ کی وفات ۱۴ ربیع الثانی ۳۲۹ ہجری میں ہوئی۔ آپ کا مزار عکہ کے مقام پر ہے جو شام کا ایک علاقہ ہے۔ (۷۸)آپ کے وصال سے آج تک آپ کے مزار پر ایک چراغ جل رہا ہے جو کبھی نہیں بجھتا ۔ کئی بار طوفان بادوباراں آیا مگر رات کے وقت اس چراغ کو نہ بجھا سکا۔(۷۹)
حضرت خواجہ احمد ابدال چشتیؒ:
سلسلہ چشتیہ کے سردار وقت کے ابدال اور صاحب تصرف حضرت خواجہ احمد ابدال چشتیؒ سادات حسنی میں سے تھے۔ آپ کا لقب قدرۃ الدین تھا۔(۸۰) آپ کا سلسلہ نسب ابو احمد بن فرغا نہ سید ابراہیم بن سید یحییٰ بن حسن بن ابو المعانی بن ناصرالدین بن عبداللہ بن امام حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن بن علی المرتضیٰ بن ابی طالبؓ تھا۔(۸۱) آپ کی ولادت سے قبل خواجہ ابو اسحٰق شامیؒ آپ کے والد سلطان فرستانہ کے پاس جایا کرتے تھے۔ ایک دن ان کی بہن سے کہا کہ تیرے بھائی کے ہاں بیٹا پیدا ہونے والا ہے۔ اپنی بھابھی کے پیٹ میں کوئی شبہ والا لقمہ بھی نہیں جانا چاہیے اور اس بچے کے منہ میں بھی حرام نہ جائے ۔ آپ چھ رمضان ۲۶۰ ہجری میں خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں پیدا ہوئے۔(۸۲)
جب آپ کی عمر سات سال ہوئی تو آپ ابو اسحاقؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سولہ سال کی عمر تک تمام ظاہری و باطنی علوم حاصل کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ۔(۸۳)
آپ کے والد نے بھی آپ کے ہاتھ پر توبہ فرمائی تھی۔ آپ کے خلفاء، میں خواجہ ابو محمد اور خواجہ خدا بندہ شامل ہیں۔(۸۴)
خواجہ ابو اسحاقؒ آپ کی تربیت کے بعد واپس روم چلے گئے۔ اس کے بعد خواجہ ابو احمد ابدالؒ قصبہ چشت میں چشتی مسند پر تشریف فرما ہوئے اور مخلوق کی ہدایت کا سبب بنے۔آپ چشتی سلسلہ کے اہم مشائخ میں شامل ہیں۔ آپ نے لمبی عمر پائی۔آپ نے جمادی الثانی ۳۵۵ہجر ی میں وصال پایا اور آپ کا مزار ہرات سے تیس کوس کے فاصلے پر قصبہ چشت میں ہے۔(۸۵)
حضرت خواجہ ابو محمد بن ابو احمد چشتیؒ:
آپ کا لقب ناصح الدین تھا اور آپ اپنے وقت کے عظیم ولی تھے۔ جن دنوں آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے تو آپ کی والدہ لا الہ الا اللہ کی آواز سنا کرتی تھیں۔جب اس نے یہ واقعہ خاوند کو سنایا تو انھوں نے فرمایا کہ خدا تم کو نیک سیرت بچہ عطا کرے گا۔ آپ کی ولادت یکم محرم الحرام ۳۳۱ ہجری کو ہوئی۔ (۸۶) آپ مادر زاد ولی تھے اور چشتی حسنی تھے جو شخص آپ کو آزمانے آتا مسلمان ہو جاتا ۔ بارہ سال کی عمر میں حجرہ میں تنہا رہے ۔روزانہ روزہ رکھتے اور بہت زیادہ مجاہدہ کرتے۔(۸۷)آپ کے زمانہ میں چشت کے قصبہ میں کوئی بھی غیر مسلم نہ تھا۔(۸۸)
آپ نے خرقۂ خلافت اپنے والد بزرگوار حضرت خواجہ ابو احمد ابدال سے حاصل کیا۔ آپ کی عمر صرف چوبیس سال کی تھی کہ والد کی وفات ہو گئی۔ آپ اپنے والد کے مصلیٰ پر تشریف فرما ہوئے اور کنواں میں الٹا لٹک کر صلوٰۃ المعکوس ادا کرتے اور آپ بہت کم سوتے۔ سات دن کے بعد ایک کھجور اور پانی کا ایک گھونٹ پیتے ۔ حضرت خضرؑآپ کے ظاہری باطنی رہبر ہیں۔(۸۹)
جب سلطان محمود غزنوی ہندوستان میں جہاد کر رہا تھا اور سومنات کے محاذ پر تھا تو غیبی اشارے سے آپ نے اس کی مدد کی اور چند درویشوں کے ساتھ لشکر اسلام میں شمولیت اختیار کی اور ان کے ساتھ جہاد کیا ۔ ان اولیا ء اللہ کی برکت سے سلطان محمود غزنوی کو سومنات کا مندر فتح کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔(۹۰)
آپ کے خلفاء میں خواجہ ابو یوسف ، خواجہ محمد کاکو اور خواجہ استاد مردان شامل ہیں۔(۹۱)
آپ کی وفات اسی سال کی عمر میں ۴۱۱ہجری میں ہوئی۔ وفات کے مہینے میں اختلاف ہے۔ انوارالعاشقین میں ۱۴ ربیع الاول خزینۃ الاصفیا اور تاریخ مشائخ چشت میں ۱۴ ربیع الاول اور یکم رجب دونوں تاریخ لکھی ہیں ۔آپ کا مزار چشت میں ہے۔(۹۲)
حضرت خواجہ سید ابو یوسف بن سمعان الحسینی چشتیؒ:
آپ کا لقب ناصر الدین تھا اور آپ کی ولادت چشت میں ہوئی۔آپ کا سلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے امام حسینؓ تک پہنچتا ہے۔آپ کا نام سید یوسف بن محمد سمعان بن ابراہیم بن محمد بن سید حسین بن عبداللہ علی اکبر بن امام حسن اصفری بن امام علی نقی بن امام تقی بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت امام حسینؓ تھا۔ خواجہ ابو محمد کی وفات کے بعد آپ ہرات چلے گئے۔ راستے میں کنک نام کے ایک گائوں میں ایک درویش کی بڑی نیک بیٹی تھی جس نے خواب میں چودھویں کا چاند اپنے پاس اترتے دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ تم میری بیوی ہو اور تمھیں خدا سے مانگا ہے۔ لڑکی کا والد خواب کی تعبیر پوچھنے آپ کے پاس آیا تو آپ نے پہلے ہی اس کو خواب بتا دیا اور اسے کہا کہ وہ چاند میں ہی ہوں۔ اس لڑکی سے آپ کی شادی ہوئی جس کو آپ لے کر چشت آ گئے جس کے بطن سے خواجہ مودود چشتی پیدا ہوئے اور ایک اور لڑکا تاج الدین پیدا ہوا۔(۹۳) آپ ریاضت اور مجاہدہ میں بے مثال تھے۔ زمین میں قبر کھود کر بارہ سال کا چلہ کیا اور ریاضت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔(۹۴)
آپ کو خرقۂ خلافت اپنے ماموں خواجہ ابو محمد چشتیؒ سے ملا جو آپ کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے۔ حضرت خواجہ ابو محمد چشتیؒ نے آپ کی تربیت بہت اچھے انداز سے کی۔ آپ کی عمر ابھی چھتیس ۳۶ سا ل کی تھی کہ آپ کے ماموں کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ پر آپ جلوہ فرما ہوئے۔(۹۵)
آپ کے خلفاء میں آپ کے بیٹے خواجہ قطب الدین بن مودود چشتیؒ اور عبداللہ انصاری شامل ہیں۔(۹۶)
جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے بڑے بیٹے خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ کو تحصیل علم کی وصیت فرمائی اور اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ اس کے بعد آپ کا وصال ہو گیا۔ آپ کا وصال ۴۵۹ ہجری میں خلیفہ ابو جعفر عبداللہ قائم بن قادر خلیفہ عباسی کے عہد حکومت میں ہوا اور آپ کو چشت میں ہی دفن کیا گیا۔(۹۷)وصال کے وقت آپ کی عمر چوراسی سال تھی۔
حضرت شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین مودود چشتی:ؒ
حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ مادری طور پر ولی تھے۔ قطب الاقطاب اور قطب الدین آپ کے لقب تھے۔ آپ کو شمع صوفیاء اور چراغ چشتیہ کے خطابات سے جانا جاتا ہے۔ سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا اور سولہ سال کی عمر میں تمام ظاہری و باطنی علوم میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ آپ نے منہاج العارفین اور خلاصۃ الشرقیہ جیسی کتب بھی تصنیف کیں۔ آپ نے بیت المقدس اور بلخ و بخارا کی طرف بھی سفر کیا۔(۹۸) آپ کی ظاہری و باطنی تعلیم کو تمام مشائخ وقت تسلیم کرتے تھے۔
آپ نے خرقۂ خلافت اپنے والد محترم حضرت خواجہ ابو یوسفؒ سے حاصل کیا اور آپ اپنے والد کے جا نشین بنے اور مخلوق کی ہدایت کی ذمہ داری کو اعلیٰ طریقے سے پورا کیا۔(۹۹)
حضرت خواجہ مودود چشتیؒ کے خلفاء کی تعداد ایک ہزار سے دس ہزار تک تھی جس میں سے زیادہ مشہور خواجہ ابو احمد، خواجہ شریف زندنی، شاہ سخان، شیخ ابو نصیر شکیبان ، شیخ حسن تبتی، شیخ احمد بدرون ، خواجہ سبز پوش ، شیخ عثمان اول اور خواجہ ابوالحسن رحمتہ اللہ علیہم اجمعینہیں جو بہت سے لوگوں کی ہدایت کا سبب بنے۔(۱۰۰)
آپ کے وصال کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاریخ مشائخ چشت میں یکم رجب ۵۲۷ھ ، انوارالعاشقین میں بھی یکم رجب ۵۲۷ ھ جبکہ خزینۃ الاصفیاء میں یکم رجب ۵۲۵ھ لکھا ہے۔آپ کا مزار چشت میں ہے۔(۱۰۱)
حضرت خواجہ شریف زندنیؒ:
حضرت خواجہ شریف زندنیؒ کا لقب نیر الدین تھا۔ آپ کی ولادت ۴۹۲ھ میں زندنہ میں ہوئی۔ آپ نے چالیس سال تک جنگل میں پتے وغیرہ کھا کر گزارا کیا۔(۱۰۲)آپ عجیب و غریب احوال و مقامات رکھتے تھے۔آپ مشائخ اور ابدال کے امام تھے ۔ چودہ سال سے باوضو رہنا شروع کر دیا ۔پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ فقر و تجرد کو مقدم جانتے تھے۔ تین روز کے بعد روزہ افطار کرتے جو شخص آپ کا سماع سنتا وہ روتے روتے بے ہو ش ہو جاتا ۔آپ کی مجلس کی برکت سے دنیا سے محبت رکھنے والا دنیا سے نفرت شروع کر دیتا۔(۱۰۳)
آپ نے خرقۂ خلافت خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ سے حاصل کیا تھا۔ آپ اکثر روتے رہتے تھے اور روتے روتے ایک نعرہ مارتے اور بے ہو ش ہو جاتے اور آپ کی حالت غیر ہو جاتی۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سے اس قدر رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھ کو قرآن مجید کی یہ آیت{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ}(۱۰۴) کا ذہن میں خیال آتا ہے تو میں اس قدر پریشان ہو جاتا ہوں ۔ یہ سوچ کر کہ ہماری پیدائش تو اس لیے کی گئی ہے کہ عبادت کریں مگر میں زندگی کے کاموں میں مصروف رہتا ہوں۔(۱۰۵)
آپ کے بہت سے خلفاء تھے جن میں سب سے زیادہ مشہور خواجہ عثمان ہارونی ؒ تھے۔(۱۰۶)
آپ کے وصال کی تاریخ اور مزار کی جگہ میں اختلاف ہے ۔ انوارالعاشقین میں تین اور دس رجب ۶۱۲ھ ، خزینۃ الاصفیاء میں دس رجب ۶۱۲ ھ ، مرأۃ الاسرار میں ۳ رجب اور مقام مزار شام اور تاریخ مشائخ چشت میں تین اور دس رجب ۶۱۲ھ ، ۵۸۴ اور ۵۸۰ھ میں ۱۲۰ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور مزار کی جگہ قنوج، زندنہ اور شام میں لکھا ہے۔(۱۰۷)
حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ:
حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کا لقب ابو النور یا ابو المنصور تھا۔ مقام ہارون میں ۵۲۶ ھ میں پیدا ہوئے۔ ہارون نیشا پور کے قریب ایک علاقہ ہے۔(۱۰۸)
آپ کو خرقۂ خلافت حضرت خواجہ شریف زندنیؒ سے حاصل ہے۔ جس روز آپ کو خلافت ملی تو آپ کے پیر نے کلاہ چار ترکی آپ کے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا ۔چار ترکی کلاہ کا مطلب چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلا ترکِ دنیا ، دوسرا ترکِ عقبیٰ (مقصود صرف ذاتِ الٰہی) ، تیسرا ترکِ کھانا اور سونا ، چوتھا ترکِ خواہشِ نفس اور فرمایا کہ جو ان چار چیزوں کو ترک کر دے اسے ہی چار ترکی کلاہ پہننا چاہیے۔(۱۰۹)حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے حضرت شیخ الاسلام قطب الدین مودود چشتیؒ کی صحبت سے بھی فیض حاصل کیا۔(۱۱۰)
آپ کے بہت سے خلفاء تھے جن میں سب سے زیادہ مقبول حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری اجمیری، خواجہ نجم الدین صفری، شیخ سوری منگو ہی اور خواجہ محمد ترک رحمتہ اللہ علیہم اجمعینہیں۔(۱۱۱)
آپ کی سن وفات میں اختلاف ہے۔ مرأۃ الاسرار میں چھ شوال ۶۰۷ ہجری ، انوارالعاشقین اور خزینۃ الاصفیاء میں چھ شوال ۶۱۷ھ جبکہ تاریخ مشائخ چشت میں ۶۱۷ھ، ۶۰۳ھ، ۵۶۷ھ، ۵۹۷ ھ اور ۶۳۳ھ لکھا ہے۔

حوالہ جات
۱۔ ترمذی، محمد بن عیسٰی،سنن ترمذی، شرکۃ مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی،۱۹۷۵ئکتاب المناقب، ابواب المناقب علی بن ابی طالب، رقم الحدیث۳۷۲۳
۲۔ ترمذی، محمد بن عیسٰی،سنن ترمذی،کتاب المناقب، ابواب المناقب علی بن ابی طالب، رقم الحدیث۳۷۱۲
۳۔ شاہ ولی اللہ،قطب الدین ، القول الجمیل،(مترجم اردو: حاجی محمد زکی)، ایجوکیشنل پریس، کراچی، ۱۹۶۸ء، ص۶۳
۴۔ انوار اللہ، خان، انوار العاشقین، عثمان پریس، حیدرآباد دکن، بھارت، ۱۳۳۲ھ، ص۲۴
۵۔ واحدبخش ،کپتان ،مقام گنج شکر ؒ، صوفی فاونڈیشن ،لاہور ۱۹۸۳ء، ص ۲۷
۶۔ ابن سعد، محمد بن سعد، طبقات ابن سعد ، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۳ء،حصہ سوم، ص ۱۷۹
۷۔ شاہ ولی اللہ،قطب الدین ، ازالتہ الخفاعن خلافتہ الخلفاء، جلد چہارم، قدیمی کتب خانہ، کراچی، جلد چہارم ، ص ۴۰۵
۸۔ محمد راشد،مفتی، سیرت حضرت علی المرتضیٰ ، مکتبہ حاجی نیاز احمد، ملتان، س۔ن، ص ۲
۹۔ ’’سورۃالنجم ۵۳:۳‘‘
۱۰۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۱۴۱۴ھ، ص ۱۷۸
۱۱۔ طبری، محمد بن جریر ، ابی جعفر ،تاریخ طبری، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۲۰۰۴ء، جلد دوم،ص ۳۶۲
۱۲۔ ابن سعد، محمد بن سعد،طبقات ابن سعد، جلد دوم، ص ۱۹۲
۱۳۔ محمد نعیم ، صدیقی، تاریخ عالمِ اسلام، مکتبہ دانیال، لاہور، س۔ن، ص۳۶۱
۱۴۔ ندوی، معین الدین احمد، سیر الصحابہؓ، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۴ء،ص ۲۵۵
۱۵۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر بن کثیر، ابو الفدا،تاریخ ابن کثیر، (مترجم اردو: ابوطلحہ محمد اصغر)، دارالاشاعت، کراچی، ۲۰۰۸ء، حصہ ہفتم، ص ۳۲۰
۱۶۔ ابن سعد، محمد بن سعد،طبقات ابنِ سعد، جلد ہفتم، ص۱۹۲
۱۷۔ غلام سرور ،لاہوری، خزینۃ الاصفیاء ، مکتبہ نبویہ ، لاہور، ۲۰۰۱ء، ، جلد دوم، ص۱۱
۱۸۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ، تاریخ مشائخ چشت، مکتبہ الشیخ، کراچی، ۱۳۹۲ھ ، ص۱۱۵
۱۹۔ ایضاً،ص ۱۱۷
۲۰۔ ایضاً،ص۱۱۸
۲۱۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص۱۱
۲۲۔ ایضاً،ص۱۲
۲۳۔ ایضاً،ص۱۳
۲۴۔ عطار،فرید الدین ،ؒ تذکرۃ الاولیاء، الفاروق بک فائونڈیشن، لاہور، ۱۹۹۷ء، ص۱۵
۲۵۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۱۲
۲۶۔ ایضاً،ص ۱۵
۲۷۔ عطار، فرید الدین ،ؒ تذکرۃ الاولیاء، ص ۱۶
۲۸۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۲۱
۲۹۔ ایضاً، ص ۱۲۱
۳۰۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۱۴۱۴ھ، ص ۲۳۳
۳۱۔ انوار اللہ، خان، انوار العاشقین، ص ۱۹
۳۲۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۱۵
۳۳۔ ایضاً،ص ۱۶
۳۴۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۲۴
۳۵۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار ، ص ۲۴۸
۳۶۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۱۹
۳۷۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص ۲۰
۳۸۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص۲۰
۳۹۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۲۵۰
۴۰۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص۱۳۰
۴۱۔ ایضاً، ص ۱۳۱
۴۲۔ ایضاً
۴۳۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۲۶۱
۴۴۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء،جلد دوم، ص ۲۰
۴۵۔ جامی، محمد عبدالرحمٰن ، نفخات الانس ،(مترجم اردو:سید احمد علی چشتی) ، ادارہ پیغام القرآن، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص ۶۶
۴۶۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۲۲
۴۷۔ ایضاً
۴۸۔ ایضاً
۴۹۔ ایضاً،ص ۲۴
۵۰۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۳۷
۵۱۔ ایضاً
۵۲۔ ایضاً
۵۳۔ عطار،فرید الدین ،ؒ تذکرۃ الاولیاء، ص۶۳
۵۴۔ ہجویری ،علی بن عثمان ،داتا گنج بخشؒ، کشف المحجوب،(مترجم اردو: علامہ فضل الدین گوہر) ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ص۱۶۷
۵۵۔ غلام سرور ،لاہوری،،خزینۃ الاصفیاء،جلد دوم، ص ۲۱
۵۶۔ عطار، فرید الدین ،ؒ تذکرۃ الاولیاء، ص۷۶
۵۷۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۴۵
۵۸۔ انوار اللہ، خان، انوار العاشقین، ص ۲۲
۵۹۔ ایضاً
۶۰۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۴۷
۶۱۔ غلام سرور ،لاہوری، مفتی غلام سرور،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۳۴
۶۲۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۴۸
۶۳۔ ایضاً
۶۴۔ ایضاً
۶۵۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۳۵
۶۶۔ ایضاً
۶۷۔ ایضاً
۶۸۔ ایضاً
۶۹۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص ۲۴
۷۰۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۳۶
۷۱۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۳۴۲
۷۲۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۵۰
۷۳۔ ایضاً، ص ۱۵۱
۷۴۔ ایضاً
۷۵۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۳۷
۷۶۔ ایضاً،ص ۳۸
۷۷۔ ایضاً
۷۸۔ غلام سرور ،لاہوری،حدیقۃ الاولیاء، ص ۳۸
۷۹۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص۲۵
۸۰۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء،جلد دوم، ص ۳۹
۸۱۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۵۳
۸۲۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیا، جلد دوم،ص ۴۰
۸۳۔ ایضاً،ص ۳۹
۸۴۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۴۰۰
۸۵۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۴۳
۸۶۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۵۵
۸۷۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص ۲۶
۸۸۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۴۳
۸۹۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۵۶
۹۰۔ ایضاً، ص ۱۵۷
۹۱۔ ایضاً
۹۲۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۴۶
۹۳۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص ۲۷
۹۴۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۴۶
۹۵۔ محمد بن مبارک ،کرمانی،سیرا لاولیاء، ص ۴۷
۹۶۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۴۶۵
۹۷۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۴۹
۹۸۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۵۹
۹۹۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۵۰۰
۱۰۰۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۵۳
۱۰۱۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۶۰
۱۰۲۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۵۶
۱۰۳۔ مہاجرمدنی ، محمد زکریا ،تاریخ مشائخ چشت، ص ۱۶۲
۱۰۴۔ ’’سورۃ الذّٰریٰت۵۱:۵۶‘‘
۱۰۵۔ محمد بن مبارک ،کرمانی،سیرالاولیا،(مترجم اردو: غلام احمد بریاں)، مشتاق بک کارنر، لاہور،س۔ن ص ۱۰۰
۱۰۶۔ ایضاً
۱۰۷۔ محمد بن مبارک ،کرمانی،سیرا لاولیاء، ص ۱۰۰
۱۰۸۔ غلام سرور ،لاہوری،خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم،ص ۵۷
۱۰۹۔ انوار اللہ، خان، انوارالعاشقین، ص ۲۹
۱۱۰۔ محمد بن مبارک ،کرمانی،سیرالاولیاء، ص ۱۰۱
۱۱۱۔ عبدالرحمن ، چشتی ،مرأۃ الاسرار،(مترجم اردو:کپتان واحد بخش سیال) ، مرأۃ الاسرار، ص ۵۶۲

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *