سورج کا صوم و صلوٰۃ کے ساتھ تعلق

Table of Contents

سورج کا صوم اور صلوٰۃکے ساتھ تعلق

تحریر :عبدالوحید نظامی العظیمی

دین اسلام کے پانچ ارکان میں صوم اور صلوٰۃ کا اہتمام عوام الناس میں بڑی خشوع اور خضوع کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ارکان اسلام میں کلمہ کا ترجمہ کلمہ زکوٰۃ کا ترجمہ زکوٰۃ اور حج کا ترجمہ ہی رہنے دیا لیکن صوم کا ترجمہ روزہ اور صلوٰۃ کا ترجمہ نماز کر کے اس کا معنی و مفہوم اور مقصد کو واضح انداز میں سامنے نہیں لا یا جا سکا ۔
روزہ کے معنی عام زندگی میں ہم جو کام روزانہ کرتے ہیں اس کو روزہ کہتے ہیں مثلاً صبح کا ناشتہ کرنا ، دفتر جانا ، سکول جانا ، روزمرہ کا کام کرنا وغیرہ جب کہ صوم کا مطلب ترک کرنا ، رکنا ، ٹھہرنا ، آگے نہ بڑھنا ، چھوڑنا ہے ۔ اسلام کے اندر ترک ایک ایسا پروگرام ہے جو بندے کو غیب اور اللہ کی صفات کے قریب کرتاہے ۔
صلوٰہ کے لغوی معنی وصال ہونا ، ملاقات ہونا ، رابطہ ہونا ، ملنا ، قریب ہونا ، جڑنا وغیرہ کے ہیں یعنی صلوٰۃ کی حالت میں بندہ اللہ سے رابطہ کرتاہے ، ملاقات کرنا ، اللہ کے قریب ہو جاتا یا اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے ۔ جبکہ نماز کا معنی آگ کی پوجا کرنا ہے جو آتش پر ستوں میں رائج ہے ۔ یعنی لفظ نماز آگ کی پوجا کرنے کو کہتے ہیں ۔
صوم اور صلوٰۃ کے یہ تراجم کیوںکیے گئے اہل زبان بہتر جانتے ہیں لیکن صوم اور صلوٰۃ اپنے نتائج اور عمل کے حوالے سے جو افادیت دیتے ہیں اس بنا پر باقی ارکان اسلام کی طرح ان کے الفاظ اورمعنی اسی طرح ادا کرنے چاہیے ۔ چونکہ دونوں کا تعلق ، روحانیت کے درجات میں اضافہ کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان حاصل کرنا ہے ۔ اس لیے ان کی حکمتوں پر تفکر کرنا بہت ضروری ہے ۔ دونوں ارکان کی ادائیگی میں سورج کی حرکات یا روشنی کا بہت زیادہ عمل دخل ہے ۔ دونوں ارکان کا سورج کی روشنی سے کیا تعلق ہم اس کو الگ الگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب سورج کی روشنی اندھیرے کو ختم کرتی ہے یعنی پو پھوٹتی ہے تو فجر کا وقت ہوتا ہے سورج نصف النہار یا مکمل سر کے اوپر ہو تو ظہر کا وقت ، جب سورج کی روشنی قد کے برابرسایہ دراز کر دے تو عصر کا وقت اور سایہ ختم کر دے یعنی سورج غروب ہو جائے تو مغرب کی نماز اور جب مکمل اندھیرا چھا جائے تو عشاء کا وقت ہوتا ہے ۔
صوم میں جب سورج کی روشنی طلوع ہو جائے تو کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں اور سورج کی روشن ختم ہو جائے تو کھانے پینے کی پابندی یا ترک ختم ہو جاتا ہے ۔

صلوۃ کیا ہے؟؟

اگر ہم صلوٰۃ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ صلوۃ رکعت کا نام ہے اور ایک رکعت قیام ، رکوع اور سجدہ پر مشتمل ہے اور ان سب میں پڑھی جانے والی تسبیحات اور آیات براہ راست اللہ سے رابطہ کرانے کا سبب بنتی ہیں ۔ روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ پر معراج میں ۵۰ نمازیں فرض ہوئیں جو پانچ نمازوں میں تبدیل ہو گئی ۔ ۵۰ رکعت دن کے پانچ اوقات میں تقسیم کر دی گئی ہیں اور یہی ترتیب امت کے اندر رائج ہے اور اسی ترتیب کو سورج کی حرکات کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے ۔ سورج کی روشنی انسانی جسم اور دوسرے مادی اجسام کو تخلیق کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ سورج کی روشنی سے گیسز وجود میں آتی ہیں ، گیسز مائع میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور مائع ٹھوس اجسام میں مشتمل ہو جاتا ہے ۔ ان کے درمیان کشش اور گریز کی قوتیں قائم ہو جاتی ہیں ۔ انسان کی باڈی ( Body) کے اندر ۱۲ کھرب سیلز ملکر وجود بناتے ہیں ۔ سورج کی روشنی کی کمی بیشی ان پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اسلیے صلوٰۃ کی رکعات کی تعداد سورج کی حرکات سے منسلک ہونے کی حکمت سامنے آجا تی ہے ۔ فجر کے وقت سورج انسان کا ناف بالمقابل ہوتا ہے زندگی کی ابتدائی حرکات ناف سے منسلک ہوتی ہے اور صبح کی انتہائی لطیف روشنیاں جسم کو تخلیق کرنے والی توانائیاں فراہم کرتی ہیں ۔ فجر کی صلوٰۃ میں رکعت کو چار مرتبہ دھرانے سے جسم کے تمام سیلز بھرپور حرکت میں آجاتے ہیں اور غیبی صلاحیت بڑھتی ہے ۔ جس سے لاشعوری تحریکات میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے اور انسان اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔
جب سورج انسان کے بالکل سر پر ہوتا ہے تو روشنی میں بہت زیادہ حدت شامل ہو جاتی ہے روشنی اور حدت انسان کے سیلز اور جسم کو انتہائی توانا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ جسم کو زیادہ حرکت دینے یعنی ۱۲ یا جمعہ کی ۱۴ رکعت ادا کرنے سے روح اور جسم کے اندر ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے ۔ جو غیبی دنیا اور مادی دنیا کے نظام کو متوازن کر دیتی ہے ۔ اور لاشعوری تحریکات لاشعوری دنیا کو برداشت کرنے کے سکت پیدا کر دیتی ہے ۔
جب سورج کی روشنی اور حدت کم ہوتی ہے تو عصر کی نماز میں ۸ رکعت کی حرکات یعنی قیام ، رکوع ، سجود ، جسم کے اندر لاشعوری تحریکات کا دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر دیتی ہیں ۔ سورج کے ڈھلنے کے لمحات میں جسم کی تعمیر میں اضافہ ہونا کم ہو جانا اور خواب والا جسم یا روح کے جسم کی تحریکات بڑھنے لگتی ہیں عصر کی نماز روح کی تحریکات قبول کرنے کی صلاحیت بڑھا دیتی ہیں عصر کے وقت سورج چہرے کے بالمقابل ہوتا ہے ۔
سورج کی روشنی میں ہم جو نمازیں پڑھتے ہیں وہ جفت تعداد میں ہوتی ہیں یعنی ان کی رکعات ۲ پر تقسیم ہو جاتی ہیں مثلاً فجر ۴، ظہر ۱۲اور عصر ۸ کی رکعات کے ہندسے ۲ پر تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ جو جفت کی صفت رکھتے ہیں یہ صفت دن ، نہار یا روشنی کہلاتی ہے ۔ جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو نماز کی رکعات طاق میں تبدیل ہو جاتی ہے مثلاً روشنی ختم ہو جاتی ہے اور جسم کے سیلز انحطاط کے شکار ہو جاتے ہیں تو لاشعوری خواب والا جسم توانا ہونا شروع ہو جاتا ہے اوررکعات کی طاق حرکت اس میں اضافہ کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ مغرب کے وقت سورج دل کے مقام پر ہوتا ہے ۔
فجر کی طرح سورج عشاء کے وقت ناف کے مقام پر ہوتا ہے ۔ فجر میں روشنی کا آغاز ہوتا ہے اور عشاء میں روشنی کا مکمل اختتام یعنی تاریکی ، سیاہی یا رات ہوتی ہے اور عشاء میں بھی رکعات کی حرکات یا تعداد طاق یعنی ۱۷ ہوتی ہے ۔ یہ حرکت مکمل لاشعوری خواب والی صلاحیت کو پیدا کر کے غیب کے حواس سے روشناس کرا دیتی ہے ۔ رات یا غیب کے حواس کے اندر مسلسل رہنے کا قرآنی حکم بندے کو اللہ سے متعارف کرانے کا سبب بن جاتا ہے ۔ تہجد کی نماز میں سورج انسان کے پاؤں کے نیچے ہوتا ہے یعنی رات کو تہجد کی نماز کے لیے کھڑے انسان کا زمین کے زاویہ پر سورج پاؤں کے نیچے آ جاتا ہے ۔ روح کے اندر توانائی مکمل سرایت کر جاتی ہے اور انسان اللہ سے راز و نیاز کرتا ہے ۔
صوم :
سورج کی روشنی میں کھانا پینا ترک کرنا ، چھوڑنا ، باز کر جانے کا نام صوم ہے ۔
چونکہ سورج کی روشنی مادی جسم میں تبدیل ہوتی اور جب خوراک کا استعمال مادی جسم میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ جب ہم فجر کی اذا ن پرکھانا پینا ترک کر دیتے ہیں تو سورج کی روشنی جسم کے اندر سیلز کے درمیان کشش اور گریز کی قوتوں کو زیادہ کر دیتی ہے جس سے جسم کے اندر سیلز کے درمیان خلاء یا اسپیس بڑھ جاتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیلز کے درمیان یہ فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے جسم تکلیف یا اذیت محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ چونکہ سورج کی روشنی کی اور حدت مادے میں تبدیل نہیں ہوتی تو یہ توانائی خلاء یا اسپیس کی وجہ سے روح کے اندر منتقل ہو جاتی ہے سورج کی روشنی میں صلوٰۃ کی رکعات کی مدد سے ذہن اللہ کی طرف مرکوز رہنا اور کھانا پینا ترک کرنے سے جسم کی توڑ پھوڑ انسان انوارات و تجلیات کا ذخیرہ بڑھانے کا سبب بن جاتی ہے ۔ جس سے بندہ اللہ کی تجلی کا دیدار کر لیتا ہے ۔
قرآن کا صوم اور صلوٰۃ پر پروگرام :
قرآن میں سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’ اے ایمان والو! تم پر ترک فرض کیا گیا جیسا کہ ترک یا صیام کا پروگرام تم سے پہلے لوگوں پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ کا مشاہدہ کر سکو ۔ ۔‘‘
قرآن میں سورۃ بقرہ کی آیت میں بتایا گیا کہ قرآں متقی یعنی مشاہدہ کرنے والے کو ہدایت دیتا ہے یعنی جو لوگ ترک کا پروگرام اناتے ہیں ۔ وہی متقی یا صاحب مشاہدہ ہوتے ہیں ان کی نشانیاں یہ بتائی گئی ہیں کہ
۱۔ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔
۲۔ رزق کو خرچ کرتے ہیں ۔
۳۔ اللہ سے رابطے میں رہ کر صلوۃ قائم کرتے ہیں ۔
۴۔ اور یہ لوگ اللہ کی تجلیات جو نزول کرتی ہیں ان کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
۵۔ اور ان سے پہلے لوگوں پر جو تجلیات نزول ہوئی ان کے مشاہدے میں آ جاتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور یہی کامیاب فلاح والے ہیں ۔ مسلسل قیام الصلوٰۃ اور صیام کی کیفیت کا نام رمضان ہے ۔ رمضان کے دورانیے میں رہنے سے قرآن کی نازل ہونے والی تجلیات بندے پر منکشف ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ صوم کا اجر اللہ تعالیٰ کی ذات خود ہے ۔
سلسلہ عظیمیہ کے خانوادہ شیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے رمضان میں ترک کا پروگرام ترتیب دیا ہوا جس پر عمل کرنے سے انسان ایسے حواس میں داخل ہو جاتا ہے جہاں مادی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور ان حواس کے ذریعے اللہ کی تجلی کا دیدار کر لیتا ہے ۔
رنگ روشنی سے علاج کا قانون بتاتا ہے کہ سورج کی روشنی رنگوں کا مجموعہ ہے اور رنگوں کا مظاہرہ مادی اشیاء کی صورت میں نظر آتا ہے سورج کی روشنی جب زمین کی طرف سفر کرتی ہے تو اس کا پہلا رنگ نیلا ہوتا ہے پھر یہ نیلا رنگ فضا میں گیسز اور دوسرے اجزائ کی وجہ سے پیلے رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ گیسز اجزاء اور پیلے رنگ کا کثرت فضا کے اندر سرخ اور نارنجی رنگ بنا دیتی ہیں سورج کے طلوع اور غروب ہونے میں سرخ اور نارنجی رنگ فضا میں غالب ہو جاتا ہے ۔ یہ تمام رنگ جب زمین کی طرف نزول کرتے ہیں تو یہ خاکی یا مٹی کے رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ خاکی رنگ یا مٹی سے جو پیلا رنگ ظاہر ہوتا ہے وہ سبز(Green) ہوتا ہے باقی تمام رنگ سبز رنگ سے ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ جو پھلوں ، سبزیوں اور پھولوں میں نظر آتے ہیں ۔ ۔رمضان کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے جب ہم ان رنگوں کا استعمال یعنی پھل فروٹ یا غذا کا استعمال کم کر دیتے ہیں تو یہ رنگ نور کے اندر تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ مسلسل ترک اور صلوٰۃ کا عمل نور کو تجلی میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ تجلی اللہ کی صفات کا مظہر ہوتی ہے ۔ جس سے بندہ اللہ کی ذا ت سے واقف ہو جاتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *