میرا انداز الگ یا ایک جیسا، سوال یہ نہیں ہے سوال یہ ہے کہ ایک لڑکی کے لیے جاب گورنمنٹ کی ہو یا پرائیویٹ دوپٹہ سر سے اترا تو ہر حال میں سوال تو بنتا ہے پر اس لڑکی سے نہیں اس لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوئے مرد سے جو اسکا بھائی باپ بیٹا یا شوہر ہو سکتا ہے۔ عورت بازار میں آئی میرا جسم میری مرضی، لیکن اسکی پیدائش ایک جوڑے سے ہوئی جسکو ماں باپ کا نام دیا گیا ہے۔ تو اس وقت بھائی باپ بیٹا یا شوہر کہاں موجود تھے؟ کہا جاتا ہے عورت عزت بھی خود حاصل کرتی ہے اور  ذلت بھی۔ جب عزت کے پیچھے اسکا باپ بھائی یا شوہر ہے تو ذلت کے پیچھے کون ہے؟ سوال تو اٹھتا ہے کہ آخر عورت ہے تو پردے کا نام اور اس پردے کا حکم بھی اسکے باپ بھائی اور شوہر یا اولاد نے دینا بظاہر عورت جاب نہ بھی کرے۔۔۔۔باہر روڈ پہ جانا، بازاروں میں جانا، ہاں شادی پہ نامحرم کا وڈیو بنانا پھر چاہے وہ تعلیم یافتہ بھی نہ ہو سامنا تو آخر مرد سے ہی ہوا۔ میری باتیں تلخ ہو سکتی پر میں خود جواب کی طلبگار آخر کیوں ہم کچھ ناحق کی وجہ سے حق کو لے کر ظلم پہ اتر آئے ہیں باہر بچی اپنے ماں باپ کا سہارا بن جائے تو ہمارا معاشرہ اسکو گالی کا نام دیتا جبکہ وہی بیٹی اگر محفل میں تیار ہو کر خاندان کے فنکشن میں جائے تو بیٹی محفوظ ہونے کا نام دیتے۔ بہرحال موزوں لمبا ہے پر جواب مرد کے پاس ہے حق قائم کریں کسی بھی عورت کو یا مرد کو بنا یہ جانے کے آخر تربیت میں پیچھے ہے کون؟ ایک بار سمجھنا چاہیے عزت آج بھی زندہ ہے عزت کل بھی زندہ تھی عورت کل بھی اس ملک کا سہارا بنی عورت آج بھی آواز  ہے ۔۔۔۔۔

جزاک اللہ۔۔۔۔۔ ماہر نفسیات و سپیچ تھراپسٹ شگفتہ اقبال۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *