٭قلندر بابا اولیاء ؒ کے عرس مبارک کی نسبت سے ایک روحانی تحریر ٭
تحریر عبدالوحید نظامی العظیمی
امام مبین ، محبت اللعالمین حضور خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب میں قلندر کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ”ایسا انسان جن کے دیدۂ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہر شے کی شیئت اٹھ گئی ہو وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے یہاں تک کہ عالم تکوین سے بالاقدم رکھے اور مقام واحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدیت کی تفصیل میں عین وحدت کا جمال مشاہدہ کر کے مقام وحدت کی مستی اور بے کیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبہ احدیت پر واپس آ جائے اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محو رہے پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کر ے یہاں تک کہ اس کا عروج و نزول ایک ہو جائے ۔ جزو میں کُل اور کل میں جزو کو دیکھے پھر ان تمام سے مستغنی ہو کر حیرت محمودہ یعنی سرُور میں رہے تو اس کو قلندر کہتے ہیں ۔
قلندر کا مقام محبوبیت کے مقام سے بھی اعلیٰ ہے کیونکہ محبوبیت کے مقام پر پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے ایک عاشق دوسرا معشوق لیکن قلندریت کا مقام یہ ہے کہ یہاں دوئی بالکل نہیں رہتی ۔
روحانی علوم میں مراتب قلندریہ کی سترہ کلاسیں یا مدارج ہیں ۔
۔ 1مرتبہ دیدۂ اعتبار :
جب کوئی سالک مرشد کی نگرانی میں غیب کی دنیا کے اندر داخل ہوتا ہے تو شک ، بے یقینی ، وسوسے اور شیطانی حربے زوروں پر ہوتے ہیں ۔ غیب میں جو کچھ دیکھا صحیح تھا یا غلط ،ذہن کی ہر حالت سالک کو منتشر خیال رکھتی ہے ۔ لیکن اللہ کی طرف سفر کرتے ہوئے یہی سالک ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اس حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے اندر وسوسے خوف ، غم اور شیطانی زندگی کا عمل دخل ختم ہو جاتا ہے اس کا مشاہدہ قابل اعتبار اور مستند سمجھا جاتا ہے اسکی غیبی آنکھ جو کچھ دیکھتی وہ انتہائی مستحکم بنیادوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے اپنے مشاہدے پر اعتبار اور یقین ہوتا ہے ۔
۔2 چشم حقیقت :
غیب بینی کے اندر یہ درجہ مشاہدے کی ایسی انتہا پر ہوتا ہے جہاں سالک جس صلاحیت کی بنا پر مشاہدہ کرتا ہے وہ اس صلاحیت کی حقیقت کو بھی جان لیتا ہے ایک اس کا مشاہدہ اور دوسرا اس کو مشاہدہ کرانے والی صلاحیت سے واقفیت اس کو اللہ تعالیٰ کی صفت بصیرے روشناس کراتی ہے اور یہی اللہ کی صفت بصیر جذب ہو کر اس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے اب اگر کوئی صفت اور سالک کی صلاحیت کا مشاہدہ کرے تو وہ جان نہیں سکتاصفت بصیر سالک ہے یا سالک اللہ کی صفت بصیر ہے ۔
۔3 شے کی شیئت اٹھنا:
کائنات کی ہر شے کے دورُخ ہیں ایک شے کا مادی وجود اور دوسرا اس کا صفاتی یا روحانی وجود ،اللہ کی طرف سفر کرتے ہوئے سالک کا مشاہدہ جب انتہائی مرکزیت اختیار کر لیتا ہے تو شے کے اندر اسکی تمام صفات اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ تمام اشیاء کے اندر اللہ کی صفات کام کررہی ہیں اور وہ ہر شے کی شیئت کے اندر اللہ کی حقیقت کو جان کر شے کی شیئت سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے ۔ یہاں پر اُسکے مادی یا سانئسی علوم کی تکمیل ہو جاتی ہے ۔
۔4 مراتب وجود میں عروج :
جب سالک کے اندر اللہ کی صفات اور وجود کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے تو اس کے مشاہدہ میں یہ بات آنا شروع ہو جاتی ہے کہ زمان یا وقت مادے کے اندر کیسے منتقل ہوتا ہے یعنی ذات ہی صفات کے اندر منتقل ہوتی ہے صفات کیسے خواص کے اندر داخل ہوتے ہیں اور خواص مادے کو کیسے وجود دیتے ہیں اور وجود کو بنانے میں اللہ کا امر یا ارادہ کیسے کام کرتا ہے یہ سب اسکی ذات کا حصہ بن جاتا ہے ۔ وہ وجود اور اس کے مراتب کی حقیقت کو جان لیتا ہے ۔
۔5 عالم تکوین سے بالا قدم ہونا :
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کے انتظام و انصرام کو تکوین کہتے ہیں تکوینی بندہ عالم تکوین میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو جو کائنات کو چلانے کے لیے وقف ہیں ان کا استعمال کرتا ہے جب سالک اللہ کی صفات کا حصہ بننا شروع ہو جاتا تو وہ مدارج طے کرتے ہوئے عالم تکوین سے اوپر نکل جاتا ہے جس کو کائنات سے پہلے کا جہان کہتے ہیں اس مقام پر وہ حضور نبی کریم ﷺ کے اس نور کا بھی مشاہدہ کرتا ہے جو کائنات سے پہلے بھی موجود ہے حضور نبی کریم ﷺ کی نسبت سے عالم تکوین اور دوسرے عالمین کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور وہ عالمین کی تخلیق سے پہلے والے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں تکوینی نظام بھی باقی نہیں رہتا ۔
۔6 مقام واحدانیت :
مرشد کی نسبت اور نبی کریم ﷺ کی رحمت و کرم سے یہی سالک کائنات کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ یہ ساری کائنات اصل میں ایک ہی ہستی کی تجلیات کا مجموعہ ہے اور وہ جس مقام پر گزرتا ہے تو اس کو واحد ہستی ہی نظر آتی ہے پھر اس کا مشاہدہ اللہ کی واحدانیت پر مرکوز ہو جاتا ہے اسرار و رموز اللہ تعالیٰ کی مشیت ، اللہ تعالیٰ کے امور کے اور ایک ہی ہستی اللہ کا مشاہدہ اس کو مقام واحدانیت سے روشناس کرا دیتا ہے ۔
۔7 احدیت کی تفصیل :
سالک اللہ تعالیٰ کی صفت واحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر جب واپس آتا ہے تو اس کے مشاہدے میں بار بار ایک ہی بات آتی ہے کہ اول اور آخر، ظاہر و باطن اصل میں ایک ہی ہستی ہے اللہ کی واحدانیت کے مشاہدے میں اتر کر وہ ہر چیز کے اندر اس کی احدیت کی تفصیل کو جان لیتا ہے ۔ یعنی کہ یہی ہستی واحد ہے اس جیسی کوئی ہستی دوسری واحد نہیں ہے ۔ یہ مشاہدہ اس کو احدیت سے واقفیت دلا دیتا ہے ۔
۔8 عین وحدت کا جمال :
جس طرح سالک ابتدائی درجوں میں مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کی ہوئی صلاحیت صفت بصیر سے دیکھتا ہے یعنی وہ مشاہدہ کرانے والی صفت بصیر کی حقیقت کو جان لیتا ہے بالکل اس طرح اس درجے میں وہ جان لیتا ہے کہ اول و آخر ، ظاہر و باطن میں کام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے اس کا مشاہدہ ہر جگہ اس کو اللہ کی عین یعنی صفت بصیر کا جمال دیکھاتا ہے کیونکہ کائنات کو دیکھنے والا اور دیکھانے والی ہستی اللہ کا ہی عین وحدت ہے ۔
۔9 مقام واحدت کی مستی اور بے کیفی :
اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کرتے ہوئے سالک کو جب یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ ساری کائنات کے اندر ایک ہی ہستی ہے اور احدیت کے اندر رہ کر جب باہر آتا ہے تو مقام واحدانیت میں بھی اس طرح کی کیفیات وارد ہوتی ہے تو مقام واحدانیت تمام صفات اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے جس کو روحانیت کے اندر فنائیت ،فنا فی اللہ کا درجہ کہتے ہیں ۔
۔10 مراتب اور مقام احدیت:
جب کسی سالک کا صفت واحدانیت اور صفت احدیت کا مقام ایک ہوجاتا دونوں مقامات میں اس کے مراتب ایک ہوجاتے ہیں یعنی واحدانیت اور احدیت دونوں مراتب کا تعین باقی نہیں رہتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے اندر گم ہو جاتا ہے وہ اپنی پہچان گم کر بیٹھتا ہے کوئی دوسرا اس کو الگ سے کہیں بھی دیکھ نہیں پاتا ہے یہی کسی سالک کا مقام احدیت اور اس کے مراتب کہلاتے ہیں ۔
۔11 انسانی مرتبہ اور عبودیت :
اللہ تعالیٰ کی ذات جب صفات میں نزول کرتی ہے اور وہ درجہ بہ درجہ مختلف مراحل سے گزر کر مادیت کا وجود اختیار کرتی ہے ۔ جب کوئی سالک مقام واحدانیت اور احدیت کے اندر اپنے آپ کو فنا کر لیتا ہے تو وہ اللہ کی صفات کے ساتھ نزول کرتا ہواانسانی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کا شعور وہی ہوتا ہے جو اللہ کی صفت واحدانیت اور احدیت کے اندر کام کرتا ہے ۔ اس میں غرق رہ کر سالک انسان یا بندے کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اس مقام پر ذات کے اندر عبودیت کو اور عبودیت کے اندر ذات کو تعین نہیں کیا جا سکتا ۔
۔12 عروج و نزول کا ایک ہونا :
اللہ کی طرف سفر کرتے ہوئے جب سالک اپنا آپ صفت واحدانیت صفت احدیت کے اندر گم کر بیٹھتا ہے پھر مقام فنائیت سے مختلف درجات سے گزر کر عبودیت یا بندے کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے ذات سے لیکر عبودیت کے سفر میں جب ایک ہی ہستی کا مشاہد ے میں رہتا ہے جہاں عبودیت اور ذات کا تعین نہیں ہو سکتا تو اس کے عروج نزول کا تعین بھی ممکن نہیں رہتا یہ پتہ نہیں چلتا کہ ذات کا نزول کہاں سے شروع ہو ااور کہاں پر عروج ہوا یہ مشاہدہ دوئی کو ختم کر دیتا ہے جس بنا پر اس کا عروج و نزول ایک ہوجاتا ہے ۔
۔13 کل اور جزو :
اللہ تعالیٰ کی ذات کو کل اور بندے یا عبودیت کو جزو کہتے ہیں عین و حدت کے جمال کا جب مشاہدہ شروع ہوتا ہے کل ذات اور یک ذات یا جزو میں پہچان ختم ہو جاتی ہے کہاں سے آغاز ہوا کہاں پر اختتام ہوا ۔ نہ کوئی چھوٹا اور نہ کوئی بڑا ، نہ ظاہر نہ ہی باطن ، نہ اول نہ آخر ، ہر جگہ ایک ہی ہستی نظر میں رہتی ہے جہاں کل اور جزو ایک ہو جاتے ہیں ۔
۔14 مقام استغنیٰ :
سالک کا مسلسل احدیت اور وحدانیت کے مشاہدے کے بعد یہ شعور بن جاتا ہے کہ ایک ہی ہستی سے تمام روپ وجود میں آ رہے ہیں اور تمام روپ کے اندر وہی ہستی کام کر رہی ہے ۔جب سالک کے مشاہدے میں تمام روپ اور ہستی ایک ہی نظر آتے ہیں تو ذہن کی اس حالت کو مقام استغنیٰ حاصل ہو جاتا ہے یعنی اس کو کسی جگہ کوئی فرق نظر نہیں آتا تو ذہن استغنیٰ کا حامل ہو جاتا ہے ۔ حالتِ مستغنی میں سوائے اس ذات کے کچھ نظر نہیں آتا ۔
۔15 حیرت محمودہ :
اللہ تعالیٰ نے اپنے ذہن میں جب کائنات کو تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور اس تخلیق کے لیے اپنی لامتناہی صفات میں سے جن صفات کا تعین کیا ان صفات کو محمودہ کہتے ہیں جس مقام سے یہ صفات نزول کر رہی ہیں۔ اس کو مقام محمود یا محمودہ کہتے ہیں وہ ذات بندے کے اندر کیسے منتقل ہوتی ہے اور بندے اُس ذات کے اندر کیسے داخل ہو کر عبودیت کے جزو کو کل ذات کے اندر اس کے نزول وصعود کو مسلسل ایک دائرے کے اندر دیکھتا ہے کہ آغاز کہاں پر ، انتہا کہاں پر ۔ اول کون آخر کون ،ظاہر کون باطن، کونسا جزو ، کونسا کُل، کہاں سے عروج کہاں سے زوال ، نشان لاتعین ، ذات بے نشان ، جہاں سردی نہ گرمی ، اندھیرا نہ اجالا ، جنت نہ دوزخ ، خوشی نہ غمی ، فنا نہ بقا، نہ خیرو شر ، نہ عزت و ذلت ، نہ نیک و بد سب کچھ ختم ہو کر مقام احدیت اور واحدنیت کے مقامات سے گزر کر مقام حیرت میں مگن رہتا ہے بندے کا مگن رہنا ہی حیرت محمودہ یا مقام حیرت کہلاتا ہے ۔
۔16 مقام سرُور :
مقام حیرت سے بننے والی کیفیات کو مقام سَرُور کہتے ہیں چونکہ مقام حیرت یا مقام محمودہ کی تمام کیفیات خالق سے مخلوق میں منتقل ہوتی ہیں جب مقام سرور حاصل ہوتا ہے تو خالق اور مخلوق کی پہچان بھی ختم ہو جاتی ہے کون رازق کون مروزق ، کون خالق کون مخلوق ۔ کون مصوّر کون مصرُور ، کون مالک کون ملوک ۔ کون سی زندگی کون سی موت ، کیسا اندھیرا کیسی روشنی ، کیسی خوشی کیسی غمی ، ان تمام کیفیّات سے بے نیاز بندے کو صاحب سرُور کہتے ہیں ۔
۔17 مقام قلندر یت :
چونکہ سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ کا نور تخلیق ہوا اللہ کا نور اور اسکی صفات جب نبی کریم ﷺ کے نور سے ٹکرائی تو اللہ کے نور اور نبی کریم ﷺ کے نور سے جو وجود تخلیق ہوا اس نور کو قلندر کہتے ہیں چونکہ قلندر کے اندر دوئی نہیں ہوتی اس لیے وہ اللہ اور اس کے رسول کی صفات کا مظہر ہوتا ہے اور وہ ساری کائنات کے اندر اس طرح کام کرتا ہے جس طرح اللہ کی ذات کام کرتی ہے ۔
مہرہ و ماہ نجم کا محاسب ہے قلندر
ایاّم کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
سورج ،چاند، ستارے اور تمام کہکشانی نظام اور کائنات کا مالک قلندر ہوتا ۔ دن رات قلندر کو نہیں ہے بلکہ قلندر دن رات کو تخلیق کرتا ہے ۔