Urdu Homes website is a website where you will get information about various Islamic, sports, entertainment, Urdu news and many other things that you want to know.
جی ہاں ہم سب وقت ، ٹائم ، زمان یا زمانہ کی ملکیت ہیں ، نباتا ت ، جمادات ، حیوانات ، موسم ، ٹھوس ، مائع ، گیس اور روشنی کے منبع جات ، سورج ، چاند ، ستارے سب وقت ، دہر یا زمانہ کی مرہون منت ہیں ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ یہ بچہ ایک ماہ کا ہے یہ لڑکا ۱۵ سال کا ہے ، یہ آدمی پچاس سال کا ہے ان جملوں کے اندر تھوڑا سا بھی تفکر کریں تو یہ بات سامنے آئیگی کہ ایک ماہ کا عرصہ بچے کے اندر منتقل ہوا ہے اور جسم ایک ماہ جتنا ہو گیا تو جسم ایک ماہ کی ملکیت قرار پایا۔ ایک جسم کے اندر ۱۵ سا ل کے دن رات ماہ و سال جذب ہو ئے تو جسم بڑا ہوتا چلاگیا اگر وقت نہ گزرے تو جسم آگے نہیں بڑھ سکتا تھایعنی مادے کی نشوونما کا تعلق وقت ، ٹائم ، دہر ، عصر ، یا زمان یا زمانہ کی مرہون منت ہے۔ گویا وقت ہو گا تو مادہ وجود میں آئے گا ورنہ کائنات زیر بحث نہیں آئے گی ٹائم اینڈ اسپیس یعنی زمان و مکان ایسی اصطلاحیں ہیں جو روحانی اور سائنسی فارمولوں کا انکشاف کرتی ہیں۔
وقت کا مادے یا مٹریل کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ وقت ہی مادے کے اندر منتقل ہوتا ہے تو مادہ کی نشونما ہوتی جب وقت مادے کے اندر منتقل ہونا بند ہو جائے تو مادہ واپس وقت کے اندر چلا جاتا ہے ۔ وقت کیا ہے کائنات کے اندر اسکی موجودگی کس طرح وجود میں آئی۔ بڑے ، مفکر ، دانشور سائنسدان ، فلسفی اور علماء اس معاملے میں بے بسی اور بے چارگی کا اظہارکرتے ہیں ۔ وقت Time پر آئن سٹائن، کوپر ، سٹیفن ہا کنگ کے جدید نظریات ارسطو ، بقراط ، سقراط ، گلیلیلو کے قدیم نظریات بھی نوع انسانی کی اس گھتی کو نہ سلجھا سکے۔ ہر نئے فلسفی نے پرانے فلسفی کے نظریات کو رد کر کے جو بھی نیا نظریہ دیا نہ تو وہ نظریے کے بانی کو مطمئن کر سکا اور نہ ہی اسکی کوئی وضاحت د سکا اس کی خوبصورت مثال دور جدید کے سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی ہے جس کی وقت پر پانچ کتب منظر عام پر آچکی ہیں اپنی موت سے چند دن پہلے اس نے نہ صرف خدا کے وجود کا انکار کر دیا بلکہ ٹائم اور اسپیس کے معمے کو بھی لا حاصل قرار دیا ہے ۔ اس کی ان باتوں نے سائنس اور علمی حلقوں میں حیرتوں اور وضاحتوں کا ایک ایسا باب کھول دیا جس میں نوع انسانی کا شعور بے بسی محسوس کر رہا ہے ۔ گوگل ، یوٹیوب ، فیس بک ، انٹر نیٹ اور دیگر سرچ کے ذرائع سٹیفن ہاکنگ کے آخر بیان پر اس معاملے پر بالکل خاموش ہو گئے ہیں کہ ٹائم اینڈ اسپیس کی حقیقت کیا ہے اور اسکی موجودگی کیسے ثابت کی جا سکتی ہے ۔ انٹرنیٹ کے تمام سرچ انجنز (Search Engins) کو کھنگالنے سے ایک مکتبہ فکر ایسا بھی سامنے آ رہا ہے جو اس بات کا بر ملا اعلان کر رہا ہے کہ ٹائم اینڈ اسپیس کا تعلق الہامی اور ماورائی دنیا کے ساتھ ہے مادے کی پانچویں حالت ایتھرEitherدریافت ہونے سے سائنسدانوں کو ایک نئی جہت ملی ہے کائنات کے اندر ٹائم اور ایٹھر کیا ہے ، ایتھر ٹائم ہے یا ٹائم ایتھر کی کوئی شکل ہے ذہن مزید منتشر اور پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا ہے ۔ وقت ، دہر ، ٹائم یا زمانہ کیا ہے آخری الہامی کتاب قرآن میں اسکی خوبصورت و ضاحت کر دی گئی ہے اور نوع انسانی کے دانشوروں اور فلسفیوں کو اس کی تفصیل بھی بتا دی گئی ہے۔
سورۃ جاثیہ کی آیت نمبر ۲۴ میں ارشاد ہوتا کہ
’’ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی کچھ نہیں ، وقت ، ٹائم یا زمانہ ہی ہمیں مارتا ہے اور زندگی دیتا ہے لیکن ان کو وقت کے بارے میں کچھ علم نہیں وہ صرف قیافوں سے کام لے رہے ہیں۔‘‘
اس آیت کے اندر نوع انسانی کی علمی ، فکری اور ذہنی حالت کی عکاسی کی گئی ہے اور بلاشبہ اتنے بڑ ے بڑے فلسفیوں اور سائنسدانوں کی یہی حالت ہمارے سامنے آ چکی ہے ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ بڑے سائنسدان فلسفی جنہوں نے اپنی زندگیاں تحقیق میں گزار دیں ان کی علمی حیثیت کو نیچا ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ طرز فکر کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ سائنسدانوں کی طرز فکر مادی وجود، وسائل اور مادی شعور کی مر ہون منت ہے ۔ چونکہ مادے کے اندر تغیر ہے اسلئے فکر کے اندر تغیر پیدا ہو جانا فطری عمل ہے ۔ روحانی یا الہامی طرز فکر ہمیشہ روح اور الہام کے اندر کام کرتی ہے ۔ روح اور الہام کے اندر تغیر یا الہام پیدا نہیں ہوتا جسکی وجہ سے نتائج حقیقی ہوتے ہیں۔
اسی بات کی قرآن میں وضاحت کی گئی کہ وقت کے بارے میں ان کے تمام خیالات ، مفروضوں اور قیافوں پر مشتمل ہیں۔
وقت اور مادہ یعنی ٹائم اینڈ اسپیس کیا ہے قرآن نے اسکی وضاحت سورۃدہر کی آیت نمبر ۱ میں واضح کر دی ہے
’’ اس مادی دنیا میں آنے سے پہلے انسان زمان یا ٹائم کے اندر موجود تھا جہاں اس کا تذکرہ نہیں تھا‘‘
اس آیت کے اندر زمان و مکان ، ٹائم اینڈ اسپیس یا وقت اور مادہ کی وضاحت کی گئی ہے ۔ یعنی زمان یا ٹائم کے اندر انسان کی کوئی مادی طرز موجود نہیں اسلئے ٹائم کے اندر اسپیس زیر بحث نہیں آتی ہے ۔صرف مکان یا مادے میں تذکرہ ہو سکتا ہے ۔
ٹائم مادے کے اندر کیسے منتقل ہوتا ہے اور کیسے مادے کی تمام طرزوں کو سنبھالتا ہے اسکی وضاحت قرآن میں حضرت عزیرؑ کے واقعہ میں کی گئی ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۹ میں اسکی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے۔
’’ اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑے تھے۔ اس نے کہا یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے اسے اللہ دوبارہ کس طرح زندگی بخشے گا اس پر اللہ نے اسکی روح قبض کر لی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ اس نے کہا ایک دن یا کچھ کم ۔ فرمایا بلکہ تم سو برس اسی حالت میں رہے ہو۔ اب ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے اور پھر اپنے گدھے کو دیکھ کہ وہ گل سٹر کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ ہم تمہیںلوگوں کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں ۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست کس طرح اس پر چڑھاتے ہیں ۔ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہو گیا تو اس نے کہا میں یقین کرتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
جب ہم قرآن کے اس واقعہ پر تفکر کرتے ہیں تو ہمیں زمانے یا وقت کی تین حالتوں یا قسموں سے واسطہ پڑتا ہے ۔
۱۔ زمان متواتر یا مسلسل وقت Seiriel Time
۲۔ زمان غیر متواتر یا غیر مسلسل وقت Non Seiriel Time
۳۔ زمان حقیقی یا حقیقی وقت Real Time
چونکہ گدھے کا جسم گل سڑ کر ڈھانچہ رہ گیا تھا اس پر جو وقت صرف ہوا یا اس جسم پر وقت کا جو دورانیہ گزراہے وہ ۱۰۰ سال تھا وقت کی یہ حالت زما ن متواتر کہلاتی ہے ۔ زمان متواتر میں انسانی شعور اور ادراک کی ایک ترتیب ہے جسکی رو سے جمعہ کے بعد ہفتہ آئے گا ہفتہ کے بعد اتوار آئے گا اور اس کے بعد سوموار ہو گا اور ہمیشہ جمعرات کے بعد ہی جمعہ آئے گا ۔ اس طرح دن، مہنے اور سال ایک ترتیب سے گزر رہے ہیں ۔ حضرت عزیر علیہ اسلام کا جسم سو سال سویا رہا لیکن ان کے حواس اور ادراک میں یہ بات آئی کہ میں ایک دن سو یا ہوں ادراک شعور کی یہ کیفیت زمان غیر متواتر یعنی Non Seiriel Time کہلائے گی۔ اس کے اندر کوئی ترتیب نہیں ہوتی، بندے کے حواس یا ادراک ایک وقت میں امریکہ بھی ہو سکتے ہیں اور دوسرے لمحہ پاکستان میں مشاہدہ کر سکتا ہے ۔ ایک وقت وہ سعودیہ کے شہر مکہ میں طواف کرتا دیکھتا ہے تو دوسرے لمحے وہ جاپان کی سیر کر رہا ہوتا ہے۔ غیر ترتیب حواس میں تسلسل نہیں ہے۔اس لئے یہ حالت زمانِ غیر متواتر کہلاتی ہے۔
اس میں ٹائم اینڈ اسپیس ختم ہو جاتا ہے یعنی زمان کے اندر موجود ریکار ڈ سامنے آجاتا ہے اس ریکارڈ کو پڑھنے کی کوئی ترتیب نہیں حواس نے جو کچھ دیکھا سامنے آگیا۔ کھانے پینے کی اشیاء سو سال پڑ ی رہی ان کے اندر کسی قسم کا تغیر یا خرابی پیدا نہیں ہوئی سو سال پہلے جیسا تھا کھانا سو سال میں بھی ویسا ہی رہا۔ وقت کی یہ حالت ادراک کے اندر زمان حقیقی کہلاتی ہے۔
تین مختلف مادی اجسام کو مختلف حالتوں میں رکھنے کی صلاحیت وقت یا زمان کے اندر ہی ممکن ہوتی ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں ۔ زمان کے اندر ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ مکان یا مادے کو جس طرح چاہے تخلیق کر دے ، برقرا رکھے یا تبدیل کر دے ۔ تھوڑا سا گہرا تفکر کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ زمان ہی مکان کے اندر منتقل ہو رہا ہے اور مکان یا مادیت کی بناپر حواس یا ادراک میں تبدیلی آ رہی ہے وقت یا زمان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ مادی اشیاء کی جس طرح چاہے تخلیق کر سکتا ہے ۔ یا جس طرح چاہے ختم کر سکتا ہے ۔ اس طرح زمان کے اندر مکان یا پوری مادی کائنات کو تخلیق کرنے یا ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ سورج، چاند ستارے ، کہکشانی نظام ، بلیک ہول، وائٹ ہول یا بڑے بڑے انبولے سب کے سب زمان کے احاطہ ٔ قدرت کے اندر ہے۔ زمان کے اندر نئے نئے ستارے تخلیق ہو کر فنا کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ روحانی لوگوں نے زمان کو اللہ سے بھی منسوب کیا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔ زمان ، دہر یا وقت کو برا نہ کہو کیو نکہ زمان یا وقت ہی اللہ ہے ۔ قرآن کے اندر اللہ تعالیٰ کے متعلق جتنی بھی آیات ہیں زمان ، وقت یا ٹائم اس کو پوار پورا احاطہ کرتا ہے ۔ مثلاً اللہ ایک ہے تو پوری کائنات کے اندر زمان ایک ہی ہے ۔ زمان کو کسی قسم کے مٹریل یا چیزوں کی حاجت نہیں وہ بے نیاز ہے زمان نہ تو پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی زمان سے پیدا ہوتا ہے ۔ چونکہ زمان ایک ہے اسلئے زمانہ یا زمان کی برابری یا ہم سری نہیں ہو سکتی۔ ہر چیز کے اوپر زمان ہی محیط ہے ۔ کائنات کے آغاز سے پہلے بھی وقت یا زمان تھا۔ کائنات کے بعد بھی آخر میں زمان یا زمانہ رہ جائے گا۔ وقت یا زمان کے متعلق یہ الہامی یا روحانی طرز فکر کی اصطلاحیں ہیں ۔ اب ذرا سائنس کے اندر ٹائم اینڈ اسپیس کی قدریں اوراصطلاحوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ چونکہ سائنس کی تمام مقداروں کاتعلق مادے کی مختلف حالتوں ٹھوس ، مائع ، گیس اور روشنی کے ساتھ ہے ۔ لہٰذا وقت کی مقداریں بھی مادے سے جڑی ہوئی ہے۔ مثلاً ایک ٹرین نے کراچی سے لاہور تک ۱۸۰۰ کلو میٹر کا فاصلہ ۲۰ گھنٹو ں میں کیا۔ اب سائنس کی رو سے ۱۸۰۰ کلو میٹر کا فاصلہ اسپیس ہے ۔ ۲۰ گھنٹے ٹائم ہے ۔ اس فارمولے یا اصطلاح کو ٹائم اینڈ اسپیس کا نظریہ کہا جاتا ہے ۔ اب اگر ٹرین کا وجود نہ ہو تو سائنس کا ٹائم اینڈ اسپیس زیر بحث نہیں آئے گا۔ اب سائنس کی اصطلاح (Equation ) یوں بنتی ہے ۔
مادہ یا مادی جسم= فاصلہ + وقت ۔ یہ تین حالتیں ہیں جبکہ روحانی اصطلاح یا ایکویشن (Equation )میں دو حالتیں ہیں وقت= جسم ، یعنی وقت جسم کے اندر منتقل ہوتا ہے ۔ جس کی بنا پر ہم اس مادی جسم کو دن، ہفتے ، مہینے اور سالوں کی بنا پر تصور کرتے ہیں کہ جسم اتنے سال پرانا ، پہاڑ کی عمر اتنے سو سال ، زمین کی عمر اتنے کروڑ سال یا ہماری کہکشاں کی عمر ۵ ارب سال وغیرہ ۔ زمین کا چاندسے فاصلہ سوادو لاکھ میل زمین کا سورج سے فاصلہ ۹ کروڑ میل وغیرہ ۔ سائنس کی رو سے ایک جسم کا دوسرے جسم کے درمیان جو فاصلہ ہے تیسرا جسم جب اس کو طے کرے گا اس پر وقت یا ٹائم وجود میں آئے گا۔ اگر دونوں اجسام نہ ہوں تو سائنس کی رو سے ٹائم اینڈ اسپیس ختم ہو جائے گا ۔
روحانیت کی رو سے مادے کی تمام حالتیں ختم بھی ہو جائیں لیکن ٹائم یا وقت ختم نہیں ہو گا بلکہ ٹائم جب چاہے مادہ یا اسپیس تخلیق کر سکتا ہے کائنات کی فنائیت یا بربادی ہو سکتی ہے لیکن وقت اپنی جگہ ہمیشہ قائم دائم رہے گا۔ روحانیت یا تصوف کا علم انسان کو وقت ، زمان یا ٹائم ، دہر یا عصر کی مکمل روشناسی دیتا ہے۔ اور اس کے طریقے کا تعین بھی کرتا ہے ۔
روحانیت کس طریقے سے ہمیں اللہ کے قریب کر کے وقت کے اندر داخل کرتی ہے اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔روز مرہ زندگی کے اندر ہم اپنے معمولات کو دیکھتے ہیں تو انسان کی زندگی کے دو حصے ہیں
(۱)۔ تقاضے (۲)۔ خواہشات
تقاضوں کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ہے یعنی چھ تقاضے جس کے اوپر زندگی چل رہی ہے اگر ان میں ایک بھی تقاضہ پورا نہ ہو تو زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔
۱۔ بھوک
۲۔ پیاس
۳۔ نیند
۴۔ گندے فضلے کا اخراج
۵۔ گندے پانی کا اخراج
۶۔ بیداری
اگر ان میں کوئی ایک تقاضہ بھی پورا نہ ہو زندگی نہیں قائم رہ سکتی۔ مثلا انسان کو جب بھوک لگتی ہے تو اسے کھانے کی طلب پیدا ہو تی ہے ۔ اگر وہ کھانا نہیں کھائے گا تو اسکی موت واقع ہو جائے گی، جب کھانا اندر جائے گا تو اس کو جسم سے خارج ہونا بھی ضروری ہے اگر فضلے کی شکل میں کھانا جسم سے نہ خارج ہو پھر بھی موت واقع ہو جائے گی۔
جب انسان کو پیاس لگتی ہے تو پانی نہ پینے سے موت واقع ہو جاتی ہے جب پانی جسم کے اندر داخل ہو گیا تو اس کا خارج ہونا زندگی کی بقا ہے اگر نہ خارج ہو تو انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ۔
دنیا میں کوئی بھی انسان یا مخلوق ایسی نہیں جو نہ سوتی ہو نیند ہر صورت میں آنی ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ نیند موت کی سولی پر بھی آ جاتی ہے ۔ نیند کے بعد ہر مخلوق نے بیدار ہونا ہی ہوتا ہے ۔ نیند اور بیداری نہ ہو تو یہ موت کی علامت بن جاتی ہے ۔
انسانی خواہشات میں ، مال و دولت ، کوٹھی ، بنگلہ ، اولاد ، عورت ، اقتدار ، عزت اثر ورسوخ ، یہ سب خواہشات میں شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ خواہشات کی کوئی حد نہیں اس کے لیے انسان اپنی ساری زندگی ضائع کر دیتا ہے ۔ جبکہ تقاضے پورے کیے بغیر کوئی خواہشات پوری نہیں ہو سکتی۔
بھوک انسان کو اسکی مرضی سے نہیں لگتی اور نہ ہی اسکی مرضی سے جسم سے غذا خارج ہوتی ہے ۔ روحانیت کے مطابق جب انسان ایک مرتبہ کھانا کھا لیتا ہے تو اسکی بھوک ختم ہو جاتی ہے جب بھوک ختم ہو گئی تو وہ کوشش کے باوجود کھانا نہیں کھا سکتا۔ اب اس کو دوبارہ بھوک وقت گزرنے کے بعد لگے گی۔ اندازً پانچ یا چھ گھنٹے گزرنے کے بعد جب اسے دوبارہ بھوک لگے گی تو کھانا کھائے گا غور طلب بات یہ ہے کہ کھانا جسم کے اندر جذب نہیں ہوا بلکہ وہ خوراک کی نالی اور معدے ے گزر کر مختلف انزائم اور تیزابی مادوں میں تبدیل ہو کر خارج ہو گیا جسم کے اندر جو چیز جذب ہوئی یا ختم ہوئی وہ بھوک کا تقاضا تھا یعنی کھانے نے بھوک کی کیفیت جسم کے اندر ختم کی اور دوبارہ کیفیت وقت یا ٹائم گزرنے کے بعد پیدا ہوئی اب اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ وقت ہی جسم کے اندر جذب ہو رہا ہے ۔یعنی وقت کا گزرنا ہی جسم سے اندر منتقل ہونا ہے بھوک کا گزرنا یا ختم ہونا اور دوبارہ وقت گزرنے پر پیدا ہونا ہی جسم کو وجود میںلا رہا ہییعنی بھوک اور وقت غیر مرتی چیزیں ہیں اور خوراک اور پانی مادے کی حالتیں ہیں ۔ اگر وقت بھوک ، پیاس اور دیگر تقاضوں کی شکل میں جسم کے اندر داخل نہ ہو تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے حالانکہ آکسیجن ، پانی ،خوراک یا غذا موجود ہوتی ہے ۔ یعنی بھوک پیاس یا نیند کے تقاضوں کی مشق پر عبور حاصل کرنے سے ہم وقت اور اللہ کی صفات کو سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی بھوک ، پیاس کے ذریعے ہم وقت کے اندر داخل ہو سکتے ہیں اس کو اہل روحانیت یا مذاہب میں صوم یا روزہ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم اندازاً پندرہ یا سولہ گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں تو جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ہمارے اندر بھوک اور پیاس کے تقاضے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ شدت کا بڑھنا وقت کے گزرنے پر ہی منحصر ہو گا۔ جب بھو ک اور پیاس کا تقاضا جسم کے اندر جذب نہیں ہو گا اور مادہ جسم توڑ پھوڑ کا شکار ہوجائے گا مادے کی توڑ پھوڑ سے جسم تکلیف یا اذیت محسوس کرتا ہے ۔ ان محسوسات کو جب ہم ماوراتی ہستی اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ذہن کے یہ محسوسات غیر مرئی ہو کر بے کیف ہو جاتے ہیں یہ کیفیت بندے کو ٹائم یا دہر کے اندر داخل کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں جسم مادے نکل کر وقت کا قائم مقام ہو جاتا ہے وقت کے اندر مادے کی تمام حالتوں کا مشاہدہ کر کے اس کی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے ۔
یعنی اگر ہم مخصوص وقت تک بھوک پیاس میں رہیں تو مسلسل پیاس اور بھوک سے ہم وقت کے اندر داخل ہو سکتے ہیں ۔ تمام مذاہب اور اہل روحانیت میں مادی جسم سے آزاد ہونے کے لیے ترک ، صوم یا روز رکھا گیا ہے ۔ جسم کے تین تقاضے کم کرنے سے ، یعنی کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا وقت کی مقداروں میں اضافہ کر کے بندے سائنس ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو سکتے ہیں۔
بھوک پیاس ، نیند چونکہ تقاضہ ہے اور تقاضہ ذہن کے اندر پیدا ہوتا ہے تقاضے کو جسم کے اندر ختم کرنے کے لیے ذہن کی حرکت کا نام صلوۃ یا نماز ہے۔
اگر ذہن مسلسل مشق سے تقاضوں سے آزاد ہو جائے تو انسان ٹائم اینڈ اسپیس کی حد بندیوں کو توڑ کر وقت کی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ نہ صرف وقت کو اپنے جسم کے اندر منتقل ہوتا دیکھتا ہے ۔ بلکہ پوری پوری کائنات کی تخلیق اور تغیر و تبدل کا مشاہدہ کرتا ہے ایسے بندے کو روحانیت میں ابن الوقت کہتے ہیں ۔ ایسے بندے اللہ کے نظام تکوین کے اندر کام کرتے ہیں۔ صوم و صلوٰۃ کی مسلسل مشق سے ابن الوقت بندہ یہاں تک عروج حاصل کر سکتا ہے کہ وہ وقت کے ذریعے اپنی مرضی سے نظام کائنات کے اندر تبدیلی و تغیر پیدا کر سکتا ہے ۔ ایسے بندے کو ابو الوقت کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں جو ہماری راہ میں جدو جہد کرتے ہیں ہم ان کے لئے راستے کھول دیتے ہیں۔ بے شک اللہ محسنین کو پسند کر کے ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اللہ کے اندر جدو جہد سے مراد حواس کا وقت کے اندر داخل ہونے کی کوشش ہے جو بندے کو کامیابی سے ہمکنار کر دیتی ہے ۔ سائنس کی رو سے سپید یا رفتار بڑھنے سے وقت کم ہو جاتا ہے ۔ جبکہ فاصلہ وہی رہتا ہے ۔ سپید Speed بڑھانے کے لیے طاقت یا قوت درکار ہوتی ہے ۔ اگر طاقت یا قوت کو کائنات کے مادی اجسام ، سورج ، چاند ، ستارے اور زمین کے اندر تلاش کیا جائے تو یہ سب اجسام خلاء کے اندر کام کر رہے یعنی زمان یا خلائ نے سورج چاند ستاروں اور زمینوں کو اٹھا کر رکھا ہوا دوسرے لفظوں میں زمان ، خلا ء ، فاصلہ ہی اصل طاقت یا قوت کی علامت ہے قرآن مجید میں دو واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے ۔ حضرت سلیمان ؑ نے اپنے درباریوں سے کہا کون ہے جو ملکہ سبا کا تخت جلدی لا سکتا ہے ۔ تو ایک جن نے کہا میں آپ کا دربار بر خاست ہونے سے پہلے تخت لیکر حاضر ہو جاؤنگا ۔ جن کا یہ دعویٰ سن کر ایک درباری آصف بر ضیا نے کہا کہ آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے ہی تخت یہاں موجود ہو گا۔ حضرت سلیمان ؑ نے چہرہ پھیرنے کے بعد سیدھا کیا تو تخت موجود تھا۔ یمن کے علاقے سبا اور بیت المقدس کا فاصلہ ۱۵۰۰ میل بنتا ہے ۔ ایک سیکنڈ کیے وقت ، ٹائم کے اندر یہ فاصلہ طے ہونا اس بات کی کھل کر وضاحت کر دیتا ہے۔ خلاء، ٹائم یا وقت کے اندر انتہائی زیادہ طاقت یا قوت ہے جو مٹریل کے اوپر اثر انداز ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتی ہے ۔ لیکن یہ بات ذہن میں ہے کہ زمان ، وقت یا خلا ء اپنی جگہ برقرار رہے ۔ تبدیلی جو ہو گی وہ مٹریل کا ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے میں ہوئی۔ وقت یا خلاء یا زمان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
دوسرا واقعہ نبی کریم ﷺ کا ایک سیکنڈ کے اندر پوری کائنات کا سفر طے کرنا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ذہن مبارک وقت یا زمان کے اندر اس طرح جذب ہو گیا تھا کہ اس نے پوری کائنات کے ادنیٰ اور اعلیٰ مقامات کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ چونکہ کائنات کی کوئی بھی چیز زمان یا وقت کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں اسلیے زمان کے اندر مکان یا مادے کی جتنی بھی حالتیں ٹھوس ، مائع ، گیس ،روشنی ، ایتھر ، نور ، تجلی ، تدلیٰ اور کائنات کے اندر کام کرنے والی صفات آپ ﷺ کے ذہن مبارک میں سما گئی جن سے حواس مبارک مشاہدہ کرتے رہے اور اس مشاہدے کی حقیقت قرآن میں یوں بیان ہوگی۔ ’’دل نے جو دیکھا سچ دیکھا‘‘ ۔ پوری کائنات کے مشاہدے کو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت صرف ہوا ۔
جس طرح روشنی کی اکائی فوٹان ہے اس طرح تاریکی کی اکائی سیاہ نقطہ ہے ۔ اصل میں فوٹان اور سیاہ نقطہ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں سیاہ نقطہ ہمیں اس وقت نظر آتا ہے ۔ جب اسکی سطح کے نیچے سفیدی یا روشنی ہو۔ اور فوٹان یا روشنی ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب اسکی بساط کے نیچے تاریکی ہو سیاہ نقطہ یا فوٹان کو اگر مادے کی لطیف ترین اکائی تصور کی جائے تو اس کا وقت ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ بنتا ہے ۔ یعنی سوئی کہ ایک نقے کے اندر کھربوں ایٹم سما سکتے ہیں یہ نقہ ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ بنتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری کائنات کے اندر ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ حاوی ہے ۔ الہامی کتابوں میں سلیمان ؑ کے درباری کی صلاحیت اور نبی کریم ﷺ کی روحانی طاقت ایک سکینڈ کے کھربویں حصہ پر ان کی حکمرانی ثابت کرتی ہے۔ جدید سائنس میں ، روشنی کی لہریں، آوازیں کی لہریں اور توانائی کی لہروں نے الیکٹرونکس آلات کے ذریعے تصویر، تحریر اور آواز کو وقت کے کم وقفوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ، انٹرنیٹ اور موصلات کے ذریعے منتقل کرنے کی سائنسدانوں نے صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔ چند سیکنڈ کے اندر لہریں آواز ، تصویر کو منتقل کر دیتی ہیں دور جدید کے عظیم روحانی سائنسدان، حضور نبی کریم ﷺ کے روحانی علوم کے وارث قلندر بابا اولیا ؒ نے ایک سیکنڈ کے کھربوین حصے کے اندر داخل ہونے اور اسکی حقیقت کو کھل کر بیان فرما دیا۔ لوح و قلم کے صفحہ نمبر ۲۷۱ میں روحانی سائنس کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی علاقے کی وہ پہاڑیاں جو ماہرین ارضیات کے بقول کھربوں سال میں بنی تھیں ایک سیکنڈ کے اندر (ایٹم بم کے حملے سے ) اس طرح فنا ہو گئیں کہ اس کے آثار تک ختم ہو گئے اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ کہ ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی بقا کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ یا یوں کہنا چاہیے ایک سیکنڈ نے کھربوں سال کا احاطہ کر لیا۔ کھربوں سال کا روپ وہ پہاڑیاں تھیں اور ایک سیکنڈ کا روپ ان پہاڑیوں کا خاتمہ ۔
اس طرح سیاہ نقطہ کا ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ ازل سے ابد تک محیط ہے ۔ لیکن ہم جس ادراک کو استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ سیکنڈ کے کھربویں حصۃ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا جو ادراک ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کا مشاہدہ کر سکتا ہے اس کا تذکرہ سورۃ قدر میں ہے ۔
ترجمہ:’’ ہم نے یہ اتارا شب قدر میں اور تو کیا پوچھا کیا ہے شب قدر؟شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک ‘‘
شب قدر وہ رات ہے جس میں سیاہ نقطہ کے ادراک کا نزول ہوتا ہے یہ ادراک عام شعور سے ستر ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ستر ہزار گنا کی مناسبت ہے۔ اس ادراک سے انسان کائناتی روح کا، فرشتوں کا اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے ۔
تصوف میں اس ادراک کو ’’فتح‘‘کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ، فتح میں انسان ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے ، کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبیعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے ۔ لا شمار کہکشانی نظام اسکی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں اور لا حساب دورِ زمانی گزر کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں۔ فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقات ازل تا ابد کے قفے کا محیط بن جاتا ہے ۔
حضرت عزیز ؑ کا واقعہ ، حضرت سلیمان ؑ کے درباری آصف برخیا کا واقعہ اور حضور نبی کریم ﷺ کے معراج کا واقعہ اور مندرجہ بالا قلندر بابا اولیاء کی تحریر پر تفکر کرنے سے یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ کائنات ایک سیکنڈ کے کھربوں حصے کے اندر وجود میں آ جاتی ہے ۔ یہ کھربواں حصہ مسلسل تکرار کرتا رہتا ہے ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ وقت یا زمان اسپیس یا مکان میں منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ اگر کوئی آدمی ابو الوقت انسان کی شاگردی اختیار کرے تو زمان و مکان کی حقیقت سے واقف ہو کر اللہ کی صفات کا حامل ہو سکتا ہے ۔
ابدال حق قلندر بابا اولیاء ؒ کے شاگرد رشید حضور خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب وقت میں فرماتے ہیں ایک سیکنڈ کس جگہ سے آیا اورگزر گیا، کہاں سے آیا اور کہاں گیا، یہی سیکنڈ منٹ کے اندر تبدیل ہو گیا اور منٹ گھنٹوں کے اندر اور گھنٹے دن کے اندر اور دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ یہ ساری ترتیب (Calculation) مادے کی بنیاد پر قائم ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وقت اپنی جگہ ساکن ہے جبکہ مادہ حرکت کر رہا ہے مادے کی حرکت وقت کی وجہ سے ہے ۔ وقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں مادے سے باہر نکلنا ہو گا اور مادے سے باہر نکالنے کے لیے ہمیں اپنی نفی کرنی ہو گی۔ اپنی نفی کرنے کا آسان طریقہ مراقبہ یا صلوٰ ۃ ہے ۔ یہی طریقہ انبیاء کی سنت ہے جس کے بغیر ہم کائنات کے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ کائنات کے ایک سیکنڈ کے اندر جتنے حوادث رونما ہو رہے ہیں ان کو بیان کرنے کے لیے کھربوں سال درکار ہیں ۔ جو مادی زندگی کے اندر نا ممکن ہیں لیکن روحانی زندگی کے اندر ایک سیکنڈ کا ادراک پوری کائنات کا مشاہدہ کرا سکتا ہے ۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ سائنس میں مادے کی اکائی ایٹم ہے ۔ جبکہ روحانیت کے مادے کی اکائی وقت یا ٹائم ہے اور وقت کی اکائی ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ ہے ۔