مرد و عورت کی روحانی حقیقت

تحریر : عبدالوحید نظامی العظیمی


مرد اور عورت کی روحانی حقیقت کے بارے میں عبدالوحید نظامی العظیمی صاحب نے اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کالم لکھا ۔ مرد اور عورت کی روحانی حقیقت کےبارے میں وہ لکھتے ہیں کہ :

سورہ رحمن کی آیت نمبر ۲۰۔۱۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دوسمندروں کو اُس نے چھوڑ دیا ہے کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے ۔ تفکر کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ کائنات کی ہر چیزوں کے درمیان کشش اور گریز کا عمل دخل ہے اور ان کے درمیان ایک ایسا پردہ ہے جو کشش اور گریز کو الگ الگ کرتا ہے اگر یہ پردہ ختم ہو جائے تو کائنات(Universe) کے اندر حرکت بند ہو جائے اس بات کو عام زندگی کی مثال سے سمجھیں آدمی کو پیاس لگتی ہے پیاس سے جسم میں حدت پیدا ہوتی ہے حدت نے پانی کو کھینچنا شروع کر دیا ہے یہ حدت جتنی زیادہ بڑھے گی پانی کی مقدار(quantity) اتنی زیادہ استعمال میں آئے گی کم حدت میں پانی کم پیا گیا اور زیادہ حدت میں پانی کی مقدار جسم کے اندر زیادہ داخل ہو گی یہ کشش ہو گی ، پانی جسم کے اندر گیا جسم کے اندر ٹھنڈک پیدا ہوئی ٹھنڈک نے جسم کے اندر سے پانی خارج کر دیا ۔تو یہ گریز ہوگی یعنی جسم پانی کے اندر ہونا کشش اور جسم سے خارج ہونا گریز ہے ۔ یہ فکر کے زاویے کا وہ رخ ہے جسے انسان نے اپنے جسم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنایا اگر وہ پانی کو مرکز اور زاویہ بنا کر تفکر کرے تو وہ دیکھے گا کہ پانی نے بندے کو اپنی طرف کھینچا یہ کھینچنا پیاس کہلایا ، پانی بندے کے اندر گیا ، بندے کے اندر سے گزر کر باہر چلا گیا ، پانی کا یہ عمل بندے کے اندر کیفیات یا مقداریں کہلایا ۔ اب سوال یہ ہے کہ پانی نے بندے کو اپنی طرف کھینچا یا بندے نے پانی کو اپنی طرف کیا ۔ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو حرکت اور مقداروں کے فارمولے کا انکشاف کرتا ہے ۔ یعنی پانی نے بھی حرکت کی اور بندے نے بھی حرکت کی ، حدت سے پانی کی مقدار کا تعین ہوا دونوں آپس میں ملے اور پھر الگ الگ ہو گئے ۔ ملنا اور الگ الگ ہونا کشش اور گریز ہے ۔ یہی عمل خوراک کے حصول میں بھی کارفرما ہے ۔ بندے کو بھوک لگی ، خوراک بندے کی طرف گئی اور بندہ خوراک کی طرف گیا تو دونوں آپس میں ملے کشش اور پھر الگ الگ ہو گئے گریز ، حرکت اور مقداریں وجود میں آگئی ۔ دونوں کے مادی اجسام میں کیمیائی تبدیلی ہو ئی اگر آپس میں ایک دوسرے سے نہ بھی ملتے کیمیائی تبدیلی پھر بھی جاری رہنی تھی ۔
کشش اور گریز کی ایک اور مثال سمجھیں مرد اور عورت کشش کے تحت ایک دوسرے کے تقاضے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ کشش کی مقداریں جیسے ہی پوری ہوئی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ۔ دونوں کا الگ ہونا گریز کے علاوہ کچھ نہیں ۔ دونوں کے تولیدی مادوں کا آپس میں ملنا کشش ہے ۔ ایک کا سپرم اور دوسرے کے انڈے کا آپس میں ملنا کشش ہے اور دونوں کا اپنے تولیدی مادوں سے الگ ہونا گریز ہے دونوں کے ملنے سے نیا جسم بنتا ہے اور پرانا جسم اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے نیا جسم یا نئی کیمیائی تبدیلی کشش ہے اور پرانا جسم گریز کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ تفکر رہنمائی کرتا ہے کہ نیا آنے والا دن کشش ہے اور جو دن گزر گیا وہ گریز ہے ۔ نو ماہ کے بعد جسم کا ماں کے پیٹ سے باہر آنا کشش ہے اور نو ماہ ماں کے پیٹ کے اندررہنا گریز ہے ایک سال کا گزرنا گریز اور نیا سال کشش ہے ۔ مرشد کی ذات یا مرشد کی بات رہنمائی فرماتی ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے ہر شے جوڑے جوڑے اور جوڑے دہرے تخلیق فرمائی ہے اگر دوسرے دن میں کشش نہ ہو تو پہلا دن دوسرے دن میں داخل نہیں ہوتا داخل ہونے کے بعد پہلا دن گریز ہو جاتا ہے شے میں کشش اور گریز کی مقداریں برابر کی ہوتی ہیں کیونکہ لہریں جتنی توانائی سے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتی ہیں اتنی ہی مقدار میں توانائی کے ذریعے گریز کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ چیزیں اپنے مقامات پر متحرک لیکن ٹھہری ہو ئی نظر آتی ہیں ۔
ایک جوڑا کیسے بنتا ہے اور وہ دہرہ (Double) کیسے ہوتا ہے اس مثال کو سمجھتے ہیں ریڑھی کے اوپر لگا ہوا آم ایک مکمل درخت ہے اور زمین کے اوپر اُگا ہوا درخت مکمل آم ہے ۔ جس طرح آم کے اندر درخت نظر نہیں آتا اس طرح درخت کے اندر آم سامنے نہیں ۔ آم کا ظاہر اور اس کے اندرباطن درخت دراصل ایک جوڑا ہے ۔ درخت کا ظاہر ایک رخ اس کے اندر باطن میں آم دوسرا جوڑا ہے ۔ اس طرح آم اور اس کا درخت دُہرے جوڑے بنتے ہیں ۔ یہ اصول دنیا کے ہر پھل ، سبزی ، پودے ، جانور ، جمادات ، حیوانات ، نباتات ، فلکیات ، سورج ، چاند ، ستاروں اور پوری کائنات پر لاگو ہے اور اسی ایک ہی بنیاد پر کائنات کا م کر رہی ہے ۔
مثلاً مرشد کریم کی بات یا ذات رہنما ئی فرماتی ہے ۔
چاند ایک رخ ہے اور چاند کے اندر مٹھاس دوسرا رخ ہے چاند اور مٹھاس ملکر ایک جوڑا بنتا ہے ۔ زمین کے ظاہر میں مٹھاس نظر آتی ہے اور مٹھاس کے باطن میں چاند کا ظاہری رخ ہے تو یہ دوسرا جوڑا بن گیا اس طرح چاند اور مٹھاس دوہرے جوڑے کہلائے ۔
سورج کے اندر نمک ہے نمک اور سورج ایک جوڑا ہے زمین کے اوپر نمک موجود ہے اور اس نمک کے اندر سورج کے تمام اجزاء ہے ۔ سورج اور نمک دوسرا جوڑا ہے اس طرح سورج اور نمک دوہرے جوڑے ہیں ۔ نمک کی مقدار اور مٹھاس کی مقدار ایک دوسرے کے اندر اسلیئے داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ سورج اور چاند ایک دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہو سکتے مقداروں کی حدود طے ہونے سے کشش اور گریز کا عمل متحرک ہو جاتا ہے ۔گریز ایک مقدار کو دوسری مقدار سے دور رکھتا ہے اور کشش ایک جیسی مقداروں کو قریب لاتی ہے

یہ بھی پڑھیں : ایہہ بوٹا وی پھل نئیں سکدا

روز مرہ زندگی میں انسان کی خوراک میں ۹۰% مٹھاس ہوتی ہے اگر ذائقہ کو سامنے رکھیں تو پانی کی پیاس کا اندر بھی مٹھاس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ ہر کھانے والی چیز میں گلوکوز کی مقدا ر لازم ہوتی ہے ۔ گویا کشش کے تحت جو چیز بھی جسم کے اندر داخل ہوتی ہے وہ مٹھاس کے علاوہ کچھ نہین اور جسم کے اندر گریز کے تحت جو چیز بھی خارج ہوتی ہے وہ نمک کے علاوہ کچھ تقریباً ۹۰ % جسم سے خارج شدہ اجزائ نمکیات پر مشتمل ہے ۔ مٹھاس جسم کے اندر جا کر نمک میں کسی طرح اور کیوں تبدیل ہو تی ہے اسلیئے کہ ان کے درمیان پردہ ہے ۔
آسمان کے اندر ستاروں کی روشنی زمین کے اوپر رہنے والی مخلوق پر نمک یا مٹھاس کا تاثر پیدا نہیں کرتی عرف عام میں ہم اس کو بے ذائقہ کہہ سکتے ہیں یہ بھی جوڑا دوہرے پر مشتمل ہے ۔ ستاروں کی زمین کی مخلوقات میں حرکات کا عمل دخل ہے ۔ سورج مادے کو تخلیق کرتا ہے ، چاند مادے کے اندر جذبات اور کیفیات پیدا کرتا ہے اور ستارے مادے کے اندر حرکات پیدا کرتے ہیں اور مادے کی حرکات کشش اور گریز کے اوپر قائم رہے ۔
کشش اور گریز کے درمیان ایک پردہ ہے اگر یہ پردہ اپنے اندر سے ختم کر لیا جائے تو بندہ ذات حقیقی سے واقف ہو سکتا ہے ۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔
ذات حقیقی نے کل اشیاء کے جوڑے بنائے ہیں زمین پر انکا شمار کیا جا سکتا ہے اور اس کا شمار تمہارے جسموں کے اندر بھی کیا جا سکتا ہے اور جن اشیاء کو تم نہیں جانتے وہ بھی ( جوڑے ہیں )۔( سورہ یٰسن آیت نمبر ۳۶)
زمین پر جوڑا اپنا مظاہرہ کرتا ہے زمین ایک سکرین اور اپنے اندر مقناطیس کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ مقناطیس دوسرے مقناطیس کو اپنی طرف کھینچتا ہے یا دھکیلتا ہے ۔ کش اور گریز ہمیشہ دو وجودوں کے درمیان ہو گی اگر دو وجود یا جوڑے نہ ہوں تو کشش اور گریز زیر بحث نہیں آئیگی ۔ آم کا زمین کے اندر جانا کشش ہے زمین کا آم کے درخت کو باہر نکالنا گریز ہے اگر مذیر تفکر کریں تو انکشاف ہو گاکہ آم اور درخت دراصل دونون مٹی کے اندر سے نکل رہے ہیں اگر درخت مٹی کے اندر ہے تو پھل دے گا اور پھل کا بیچ مٹی کے اندر جائے گا تو درخت وجود میں آئے گا گویا درخت اور پھل مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ تفکر کی گہرائی یہ بات ثابت کر دیتی ہے کہ سورج ، چاند ، ستارے اور زمین مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ، سورج ، چاند ، ستارے کی روشنی زمین کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور زمین کو جذب کر کے ان سے بننے والی مخلوقات کو باہر نکال رہی ہے اور ہر چیز کا رخ آسمانوں کی طرف ہے گویا زمین اور آسمان آپس میں کشش اور گریز ہیں ان کے درمیان پردہ ذات کا نور ہے کیونکہ وہ زمین اور آسمان کا نور ہے ۔

Also read: 10 Ways to Make Money Online for Students

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *