واصف علی واصفؒ۔۔۔احوال حیات
سر زمین پاکستان میں بھی بکثرت صالحین، متقین جلوہ افروز ہوئے اور اپنا اپنا فریضہ ادا کرتے رہے۔ ان میں ایک شخصیت جن کو حضرت واصف علی واصفؒ کے نام سے جانا جاتا ہے انہوں نے اپنے دور میں ایسا علمی اور روحانی انقلاب برپا کیا کہ تاریخ اسلام میں شریعت کے ساتھ نئی طریقت کا ایک روشن باب کھل گیا
اللہ عزوجل نے محمد رسول اللہﷺ کی امت میں بڑی بڑی جلیل القدر شخصیات پیدا فرمائیں جنہوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے اپنے ادوار میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں ہر علاقہ ہر بستی میں ان شخصیات کا نزول ہوا۔ حسب استطاعت تمام نے کفرو شرک، فسق و فجور اور بدعات ضلالہ کا تدارک کر کے اسلامی نور کو عام کیا۔ خدا کے اقوال و افعال کی اسوۂ نبوی کی روشنی میں تشریح فرمائی۔ یوں تذکیہ نفس اور تصفیہ باطن ہوا۔
مذکورہ صفات کی حامل شخصیات دورِ رسالت کے بعد صحابہ کرام و تابعین پھر تبع تابعین رضی اللہ عنہ ان کے بعد علماء ربانین اور اولیاء کا ملین کے القاب سے ملقب ہوئیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺ کی متابعت میں ، تابعین نے صحابہ رضی اللہ عنہ کی متابعت میں اسی طرح علماء اولیاء اپنے پیش رو حضرات کے متابعت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورے کر گئے۔ چونکہ نبیﷺ و رسول اَب آئے گا کوئی نہیں، نہ ہی کوئی اب صحابی و تابعی و تبع تابعی بنے گا۔ اب تو فیض نبوت ہر دور میں علماء حق اور اولیائے کاملین ہی نے تقسیم کرنا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے ہر خطہ زمین پر ایسی ہستیاں پیدا فرمائیں کہ انہوں نے دین کا خوب ڈنکا بجایا۔
سر زمین پاکستان میں بھی بکثرت صالحین، متقین جلوہ افروز ہوئے اور اپنا اپنا فریضہ ادا کرتے رہے۔ ان میں ایک شخصیت جن کو حضرت واصف علی واصفؒ کے نام سے جانا جاتا ہے انہوں نے اپنے دور میں ایسا علمی اور روحانی انقلاب برپا کیا کہ تاریخ اسلام میں شریعت کے ساتھ نئی طریقت کا ایک روشن باب کھل گیا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
” مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ “([1])
(اُسی نے دود ریا (شریعت اور طریقت) بہا دیئے جو ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔)
موصوف علیہ الرحمۃ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کاذکر احوال حیات سے شروع کیا جاتا ہے۔
احوال حیات:
حضرت واصف علی واصف ؒ کی شخصیت کو پاکستان کی علمی و مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت و عظمت حاصل ہے اور ان کا گھر گلشن راوی لاہورایک لمبا عرصہ علم و فضل کاگہواراہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہا۔ ہزاروں تشنگانِ علم اور سکون قلب حاصل کرنے والوں نے وہاں آ کر روشنی حاصل کی ہے۔ ([2])
آئندہ سطور میں آپ کی زندگی کے احوال کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے ذکر کیا جائے گا۔
شخصی تعارف:
نام محمد واصفؒ، والد محترم کا نام محمد عارف دادا کا نام حافظ محمد اشرف، وطن پاکستان، بالائی پنجاب کے شہر خوشاب کے محلہ کنڈان والا میں پیدا ہوئے۔ان کا مذہب حنفی ہے ۔ آپ ؒ کا نسب ’’اعوان‘‘ہے۔
اعوان عون کی جمع ہے۔ عون، حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ، ابن علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے اسی حوالے سے اعوان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں اور صحیح النسل سادات کی طرح اعوان قوم میں بھی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و مجادلہ نفس ان کا طرہ امتیاز ہے ان کا مذہب حنفی ہے۔
تاریخ ولادت و مولد:
واصفؒ علی۲۳ جنوری۱۹۲۹ء کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ یہ گھرانہ چونکہ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھا چنانچہ یہاں محفل سماع کی روایت بڑی باقاعدہ تھی۔ ہر خوشی کے موقع پر اور اسلامی تہواروں پر سماع کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ واصف علی واصفؒ کی پیدائش پر بھی دو تین روز تک قوالی کا سلسلہ جاری رہا جس روز آپ کا عقیقہ تھا۔ اسی روز آپ کے دادا حافظ محمد اشرف انتقال کر گئے۔ ([3]) انہوں نے آپ کا نام آپ کی پیدائش سے پہلے ہی تجویز کر رکھا تھا۔
بہن بھائی:
آپ ؒکی چار بہنیں اور دو بھائی تھے واصفؒ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ واصفؒ کی تین ہمشیرگان محترمہ زبیدہ ملک، ضمیر النساء اور بیگم مقبول خاتون خانہ تھیں۔ جبکہ محترمہ شمیم اختر شعبہ تعلیم میں اُردو کی استادتھیں واصفؒ کے ایک بھائی بھی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے جبکہ دوسرے بھائی بیرونِ ملک مقیم تھے۔
حلیہ مبارکہ:
واصفؒ کا قدر دراز تھا جسم توانا رنگت صاف، سر بڑا پیشانی کشادہ، ابرو وسیع تھے اور پلکیں سیدھی اور لمبی تھیں۔ آنکھیں بڑی تھیں شیریں بیان اور ہشاش بشاش طبیعت کے مالک تھے۔
تعلیم و تربیت:
واصفؒ نے میٹرک تک تعلیم خوشاب میں حاصل کی۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول خوشاب (ضلع شاہ پور) سے ۱۹۴۲ء میں ورنیکولر فائنلز سےمڈل کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا انہوں نے ۱۹۴۴ء میں میٹرک کا امتحان اسی اسکول سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اور اپنے نانا مولوی محمد امین (گورنمنٹ جامعہ ہائی اسکول جھنگ کے ہیڈ ماسٹر تھے )کے پاس جھنگ چلے گئے۔ واصف نے پہلے گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ سے ایف ایس سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کی اور پھر گورنمنٹ ڈگری (جھنگ) ہی سے ۱۹۴۹ء میں بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور روانگی:
واصفؒ کا تعلق ایک علم دوست گھرانے سے تھا ان کے والد بھی اتالیق تھے اور نانا بھی اس زمانہ کے گریجویٹ تھے اور ماموں انوار الدین ملک بھی گریجویٹ تھے اور محکمہ شاہرات میں انجینئر تھے لہٰذا واصفؒ کے والد حافظ محمد اشرف کی شدید خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کسی عہدے پر فائز ہو۔
چنانچہ جب واصفؒ نے ایم اے (ریاضی) کرنے کے لیے لاہور آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فوراً اجازت دے دی ۵۰۔ ۱۹۴۹ء میں واصفؒ لاہور آ گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا مگر ایم اے ریاضی کرنے میں ناکام رہے پھر انہوں نے گورنمنٹ لاہور میں ایم۔ اے انگریزی شروع کیا۔ لیکن وہ بھی مکمل نہ کر سکے حالانکہ ایم۔ اے انگریزی کے طالب علم ہوتے ہوئے بھی واصفؒ بی۔ اے کی انگریزی اینگلو پنجابی کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔([4])
ایم۔ اے میں ان کی مسلسل ناکامیوں کا سُن کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کند ذہن تھے یا عیاش نوجوانوں کی طرح شوقیہ کالج میں داخلہ لے لیتے تھے۔ مگر واصفؒ کے بارے میں ایسی رائے قائم کرنے سے قبل اُن کے ہم عصروں کی (اُن کے بارے میں) آراء کا جائزہ لے لینا ضروری ہو گا۔ بریگیڈیئر سعید (اُن کے کلاس فیلو) کا اُن کے بارے میں مؤقف (کا ملخص) یہ ہے۔
واصفؒ کا مطالعہ وسیع تھا جس روانی سے ان کے ذہن میں سوالات کی گرہیں کھلتی تھیں اور جس رفتار سے غیبی مضامین ان کے خیال میں آتے تھے وہ اس تیزی سے انہیں صفحے پر منتقل کرنے سے عاجز و قاھر تھے۔ چنانچہ امتحان میں ان کی لیاقت کے جوہر کھل کر سامنے نہ آ سکے یعنی خیال کی مختلف پرتیں اور جہتیں ان کے شعوری نظام کی اکائی میں منتقل نہ ہو سکیں اور وہ اکثر پرچے ادھورے چھوڑ کر امتحان سے اٹھ آتے اور ایک دفعہ کی ناکامی کے بعد پھر کوشش نہیں کی۔ ([5])
مختصر یہ کہ واصفؒ کے دوستوں کی آراء اور حالات کو دیکھ کر بغیر کسی شک و شبہ کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ واصفؒ کی امتحانات میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کی وہی کمزوری یا خاص وصف تھا جس نے بعد میں لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ یعنی وہ بات کے بیان میں مہارت رکھتے تھے۔ مگر خیالات کی مختلف پرتیں امتحانی ضروریات کے تحت صفحے پر منتقل نہ ہوسکیں۔
اس کے علاوہ اُن کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کے معاشی حالات بھی تھے ان کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں لاہور جیسے شہر میں پڑھنے کا خرچہ بھیج رہے تھے چنا لاشعوری طور پر وہ اپنے والدین کی اس معاشی صورتحال کی وجہ سے ذہنی طور پر نا آسودہ تھے کیونکہ وہ بہن بھائیوں میں بڑے تھے اور اپنی حساس طبیعت کی بدولت یہ بات زیادہ محسوس کرتے تھے۔ ([6])
چنانچہ امتحانات کی تیاری پر وہ ایک روایتی طالب علم کی طرح توجہ نہ دے سکے بلکہ ایک روایتی بڑے بھائی کے طور پر باپ کا دست و بازو بن گئے اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی یہاں لاہور میں بلا لیا اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ان تھک محنت شروع کر دی ایم۔ اے میں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے پنجاب سول سروس کا امتحان بھی دیا مگر میرٹ میں ان کا نمبر آخر میں تھا۔
جس پر بقول ان کے عزیزوں اور دوستوں کے انہیں تحصیلدار کی ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر اس ملازمت سے طبعی مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اینگلو پنجابی کالج کی ملازمت (دوران طالب علمی وہ اس لیاقت کے بھی حامل رہے کہ یہاں بی۔ اے کے طلبہ کو انگریزی پڑھاتے تھے) کو ترک کر کے اپنا نجی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا۔
لاہور انگلش کالج کا قیام:
واصفؒ نے۱۹۶۲ء میں انار کلی کے چوک کے قریب ۶ نابھہ روڈ پر ایک نجی تعلیمی ادارہ قائم کیا جس کا نام ”لاہور انگلش کالج“ رکھا۔ اس ادارے کے قیام کے دو مقاصد تھے۔ ایک روٹی روزی چلانا اور دوسرا خاندانی ذوق (تدریسی ذوق) کی تسکین تھی مگر تدریس کا شوق جس کا اصل مقصد معاشرتی اصلاح تھا بھی ان کے پیش نظر تھا (جس کو وہ مرتے دم تک پورا کرتے رہے۔) اس کالج میں صبح کے وقت میٹرک اور شام کے وقت ایف اے اور بی اے کی انگلش کی کلاس ہوتی تھیں آپ کا یہ ادارہ لاہور میں چند دنوں میں مشہور ہو گیا۔ ([7])
ان کے طلباء کی اکثر تعداد کا تعلق سیکرٹریٹ اور دیگر سرکاری اداروں کے نچلے در حبے سےتھا کالج کی فیس بھی مناسب تھی اور آپ کا پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ طلبہ انہماک اور توجہ سے سنتے اور انگریزی جیسا مشکل مضمون بھی ان کی دسترس میں آنے لگتا واصفؒ کی باتوں میں ایک خاص تاثیر ہوتی تھی جنہوں نے اس دور میں واصفؒ کے اس کالج میں پڑھا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہیں واصفؒ جیسا انگریزی ادب کا استاد اس کے بعد نہ مل سکا۔
ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر سرفراز حسین قاضی (استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور) واصفؒ کے پڑھانے کے بارے میں کہتے ہیں:
”لاہور انگلش کالج کا نظم و ضبط مثالی تھا جب وہ لیکچر دے رہے ہوتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے انگریزی کے بڑےبڑے دانشوروں اور شعراء کے افکار کی تفہیم ان پر وارد ہو رہی ہے۔ بعض اوقات طبیعت میں جلالی رنگ غالب ہوتا۔ ایک کمرہ جس میں اکثر رات کے پچھلے پہر بعض صوفی لوگ آیا کرتے تھے ۔ واصفؒ نے اس کمرے کی طرف آنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔“([8])
واصفؒ کی نیت میں اپنے طلباء کی فلاح کا حد درجہ عزم اور شوق پایا جاتا تھا۔ ان کے الفاظ عام ہوتے تھے مگر ان کا اثر سوا ہوتا تھا۔ واصفؒ کے اخلاص کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے ہی اس کالج نے لاہور میں قابلِ ذکر مقام حاصل کر لیا۔ ([9]) واصفؒ کی انگریزی تدریس کی شہرت شہر بھر میں ہو گئی۔ اس ادارے کے قیام اور شب و روز کے تذکرے سے واصفؒ کی زندگی کےنشیب و فراز پر روشنی پڑتی ہے۔ اس ادارے نے واصفؒ کو باقاعدہ طور پر لاہور میں قدم جمانے اور لوگوں سے روابط پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا اور اسی دوران انہیں صوفیانہ معاملات اور راہ سلوک کے مراحل بھی پیش آئے۔
واصفؒ کا تصوف کی طرف رجحان:
آہستہ آہستہ واصفؒ کا رجحان تصوف کی طرف بڑھتا گیا۔ چونکہ انہوں نے بہنوں کی شادیاں کر دیں معاشی پریشانی ختم ہو گئی بھائی تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے چنانچہ انہیں جب بھی موقع ملتا راہ سلوک پر چل پڑتے۔ بعض اوقات لڑکوں کو کلاس میں چھوڑ کر داتا دربار چلے جاتے اور پہروں مراقبہ میں رہتے۔
واصفؒ کی اس نوعیت کی سرگرمیوں کی وجہ سے لاہور انگلش کالج کی کارکردگی متاثر ہونے لگی چنانچہ انتظامی امور میں سخت بے قاعدگی پیدا ہونے لگی اساتذہ کو تنخواہ وقت پر نہ ملتی کیونکہ طلباء سے فیس کی باز پرستش نہ ہوتی تھی۔ اُن کا دھیان خدا کی تلاش میں لگا رہتا تھا لہٰذا آپ نے اپنے دیرینہ دوست الٰہی بخش وجدانی کو کالج کا پرنسپل بنا دیا۔ اس سلسلے میں الٰہی بخش وجدانی کہتے ہیں۔ ([10])
”میں نے کالج کا انتظام سنبھالتے ہی بعض سخت اقدامات کیے جس سے کالج کی حالت بہتر ہو گئی۔ میں نے اساتذہ کو باقاعدگی سے پڑھانے کی ہدایت کی جس کا اطلاق بطور استاد واصفؒ پر بھی ہوتا تھا مگر وہ آزاد منش آدمی تھا۔ میں نے ایک دفعہ اسے بتایا کہ کالج کی مالی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اس پر واصفؒ نے مجھے کہا ”واجدانی!“ تم کیا سمجھتے ہو میں یہ کالج پیسے اکٹھے کرنے کے لیے چلا رہا ہوں میں تو اپنے جنازے کے لیے لوگ اکٹھے کر رہا ہوں۔“
واصفؒ کے اس جملے سے ان کی ذہنی حالت کا پتہ چلتا ہے کہ اُن کے سفر کا رُخ کس طرف ہو گیا تھا۔ اولیاء اللہ (داتا صاحب، میاں میر، قصور، حضرت بلھے شاہ، بابا فرید پاکپتن، اولیائے ملتان، تونسہ، اچ شریف، سلطان باہو) کے مزارات پر حاضری ان کا معمول بن گئی تھی۔ ان کا رابطہ حضرت بلھے شاہ کی نگری میں ایک صاحب شیخ وزیر علی سے ہو گیا۔ وہ راہِ طریقت کےمسافر اور صاحب شریعت آدمی تھے۔ ([11]) شیخ صاحب سے واصفؒ قرآن پاک کی تفسیر سننے کئی سال تک قصور جاتے رہے لاہور انگلش کالج کی محفلوں میں شیخ وزیر علی کا بھی اضافہ ہو گیا اور واصفؒ کو باقاعدہ تفہیم قرآن کے مواقع میسر آئے۔
ایک دفعہ واصفؒ اپنے ایک شاگرد ([12]) (چوہدری عنایت الٰہی ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر اسلام آباد اپنے دور طالب علمی سے واصفؒ کی صحبت میں رہے۔ بعض واردات قلبی اور واصفؒ کے غیر معمولی رویوں کے راوی ہیں۔) کو اپنے ساتھ اسکوٹر پر بٹھا کر گھر میں کسی کو بغیر بتائے زیریں پنجاب کے بزرگان طریقت کے مزارات کی زیارت کے لیے چل دیئے بابا بلھے شاہ کے مزار پر حاضری دی پھر بابا فرید الدین گنج شکر اولیائے ملتان، تونسہ، اچ شریف اور سلطان باہو کے مزار پر حاضری دی پیر صاحب دیول شریف سے ان کو زمانہ طالب علمی سے ہی خاص نسبت تھی۔ آپ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اولیاء اللہ کے مزارات پرچلے جاتے اور پہروں مراقبے میں رہتے اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ شام کے گئے اگلے دن فجر کے بعد ہی ان کی واپسی ہوتی۔ ([13]) ویسے ملک اکرم اور برگیڈیئر سعید اور سید صفدر کے بیانات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ واصفؒ، پیر صاحب دیولؒ سے بیعت تھے مگر بعد میں اُنہوں نے اُن کے ہاں جانا ترک کر دیا تھا کیونکہ ان کے معتقدین میں سے کسی نے ان کی زبان سے پیر صاحب کے بارے میں کچھ نہیں سُنا۔ ویسے ان کے ایک معتقد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ:
”واصف ؒ نے کئی خفی و سری صوفیاء کی صحبتیں پائیں۔ اگر انہیں پتہ چلتا کہ فلاں جگہ کوئی اللہ والا موجود ہے تو وہاں جاتے۔ طبیعت کو بھا جاتا تب بھی اور اگر روحانی تشفی نہ ہوتی تب بھی چپ رہتے۔ اس کے بارے میں کوئی رائے ظاہر نہ کرتے۔“([14])
ازدواجی زندگی کا آغاز:
واصفؒ کی شادی ان کے خاندان کے عام دستور کے مطابق بچپن میں ہی ان کے ماموں زاد کے ساتھ طے پا گئی تھی مگر بعض خاندانی پیچیدگیوں اور روایتی مسائل کی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ گیا اس کے بعد واصفؒ تعلیمی، فکری مصروفیات کے باعث اور گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ کو اتارنے میں مصروف رہے اور سب بہن بھائیوں کی شادی کرنے کے بعد وہ اپنی شادی کے لیے رضا مند ہوئے حالانکہ اُن کے والدین وقتاً فوقتاً اُن پر شادی کا دباؤ ڈالتے رہتے تھے کیونکہ وہ سب بہن بھائیوں سے عمر میں بڑے تھے۔ واصفؒ کی شادی ۲۶ اکتوبر۱۹۷۰ء میں اکتالیس برس کی عمر میں ہوئی ۔ ([15]) ان کی اہلیہ مقصودہ واصف کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا۔ اُن کی اہلیہ کے والد محمد اکرم گل محکمہ مال جوہر آباد ضلع خوشاب میں سپرنٹنڈنٹ تھے واصفؒ کی اہلیہ شادی سے قبل گورنمنٹ گرلز اسکول جوہر آباد میں ٹیچر تھیں۔ شادی کے بعد وہ سلسلہ ملازمت جاری نہ رکھ سکیں۔ آپؒ نے لاہور کے ایک مشہور علاقے گلشن راوی، فردوس کالونی میں مکان بنا لیا جب لاہور انگلش کالج کے ختم ہونے پر روز گار کا مسئلہ پیدا ہوا تو آپ نے اپنے گھر میں ہی واصفؒ پبلک اسکول کے نام سے ایک چھوٹا سا اسکول کھول لیا۔ جہاں پہلی سے پرائمری تک کے بچوں کو ان کی اہلیہ پڑھاتیں جبکہ واصفؒ بی۔ اے اور ایم اے کے چند طلباء کو پڑھاتے۔ اس طرح ان کے گھر کے خرچ کا انتظام چلنے لگا۔ اس بارے میں خواجہ غفور احمد کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کالج کیوں بند کر دیا تو آپ نے بڑا سیدھا اور مختصر جواب دیا ”مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا تقاضا کیا اور میں نے کسی جھگڑے میں پڑنے کی بجائے کالج بند کرنے کو ترجیح دی۔“([16])
ان کی اہلیہ بڑی صابرو شاکر خاتون تھیں۔ وہ بطور شوہر ان کی خوبیوں اور خاصتیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں:
”وہ ایک فراخ دل اور محبتیں کرنے، محبتیں بانٹنے والے انسان تھے ہمیشہ درگزر کرتے غصہ بہت کم آتا تھا غصے کے عالم میں اکثر خاموش ہو جاتے۔ میں نے کبھی انہیں آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا۔ بہت سادہ اور درویش طبیعت انسان تھے۔ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہتے تھے۔ رات کا بیشتر حصہ مراقبے میں گزار ردیتے۔ بہت کم سوتے تھے۔ اپنے محدود و سائل میں میری اور بچوں کی بڑی عمدہ طریقے سے دیکھ بھال کی میں کبھی کبھار ان معاشی حالات سے تنگ پڑ جاتی تھی مگر وہ ہمیشہ قناعت اور صبر کا درس دیتے تھے۔ بات اس طرح سمجھاتے تھے کہ فوراً دِل پر اثر کرتی۔“([17])
اولاد:
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں عطا کیں۔ جن کی تربیت انہوں نے اپنے میلانات اور عقائد کے مطابق کی اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اپنے حالات کے مطابق عمدہ طریقے سے تعلیم دی وہ اپنی علمی و ادبی اور فکری مصروفیات کے باوجود بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیمی و تدریسی ضروریات سے کبھی غافل نہ رہے۔ بیٹیوں سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا وہ ا پنے معتقد ین کو بھی بیٹیوں سے پیار کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ جس کا سبب وہ یہ بیان کرتے کہ رسولﷺ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ اکثر و بیشتر اپنی بیٹیوں کو کالج سے لینے جایا کرتے تھے۔ واصفؒ کے انتقال کے وقت ان کا بیٹا کاشف محمود ایم بی اے کا طالب علم تھا جبکہ بیٹیاں علی الترتیب سعدیہ نادیہ، قدسیہ، بی۔ اے، ایف اے اور میٹرک میں زیرِ تعلیم تھیں۔ ([18])
تذکرہ آباؤاجداد :
واصفؒ کے جد امجد ملک غوث محمد ایک دیندار صاحب شریعت اور پابند صوم و صلوٰۃ انسان تھے۔ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عمر بھر علوم شریعہ اور تفہیم قرآن کے لیے بھی کوشاں رہے۔ اسی جستجو میں انہوں نے اس وقت کے عظیم صوفیاء کی صحبت بھی اختیار کی۔وہ صوفی سلسلہ چشتیہ کے مشہور بزرگ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی سے بیعت تھے وہ اُن کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ خواجہ تونسوی کے خلیفہ شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی نے انہی کے خاندان کی ایک خاتون مائی بانو کو اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا۔ ([19]) چنانچہ ملک غوث محمد گاہے بگاہے خواجہ سیالوی کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ خواجہ سلیمان تونسوی کے انتقال کے بعد یہ حاضری مسلسل ہو گئی یہیں آپ کو پیر مہر علی (گولڑہ شریف) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جو خواجہ سیالوی کے خلیفہ تھے۔ یہ انہی شخصیات کی صحبت کا فیضان تھا کہ تعلیم و تعلم واصفؒ کے گھرانے کا خاص وصف تھا۔ ان کا خاندان اسلامی اقدار و روایات کی پاسداری اور پابندی کے لیے خوشاب شہر میں ممتاز تھا۔ ([20])
ملک غوث محمد کثیر الاولاد تھے ان کے گیارہ بیٹوں میں سے ایک ہی جانبر رہ سکا جس کا نام حافظ محمد اشرف تھا آپ نے اپنے بیٹے کی تربیت خالصتاً انہی خطوط پر کی جن کاعرفان انہیں صوفیاء کی صحبت سے حاصل ہوا تھا۔ انہوں نے حافظ محمد اشرف کو حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ صوفیا کی خدمت میں پیش کیا۔ جہاں حافظ محمد اشرف نےباطنی علوم حاصل کیے آپ واصفؒ کے داد تھے اسی لیے صوفی ازم یا رُوح کا وجدان آپ کو اپنے خاندان سے گھٹی کی صورت میں مِلا۔ حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں محمد عارف، محمد وارث اور ایک بیٹی خدیجہ سے نوازا۔ آپ نے بھی اپنی اولاد کی تربیت میں آباء کی تقلید کی اور انہیں دینی و دینوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ملک محمد عارف نے نیشنل اسکول آف آرٹس لاہور سے تین سالہ ڈپلومہ کیا اور محکمہ تعلیم میں بطور ڈرائنگ ٹیچر ملازمت اختیار کر لی۔ ([21]) ان کی شادی مولوی محمد امین (حافظ محمد اشرف کے چچا زاد بھائی) کی صاحبزادی سے ہوئی ۔ مولوی محمد امین (واصف کے نانا) گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ میں ہیڈ ماسٹر تھے۔
وفات و مدفن:
واصف صاحب ۱۸ جنوری۱۹۹۳ء کو سہ پہر کے وقت خالق حقیقی سے جا ملے۔ واصفؒ کی موت ایک صوفی کی موت تھی۔
بقول سلیم الرحمٰن:
”واصف علی واصف کی سحر بیانی معی آفرینی اور روحانی مرتبے کا چرچا ایک مدت کانوں میں گونجتا رہا ایک لحاظ سے واصف صاحب کو اس وقت برپارزم حق و باطل کے آخری مجاہدین میں شمار ہونا چاہئےجس نے ایک دفعہ ان کی باتیں سن لیں وہ ان کا گرویدہ ہو گیا۔ گفتگو سراسر آمد تھی اور اقوال زریں، شاعرانہ اظہار اور وجدانی کلمات کا نفس آمیزہ بات کرتے وقت اکثر ان پر جذب کی کیفیت طاری ہوتی جیسے ان کی ذات کی علوئی سطح سے سخن پیما ہو۔“([22])
محبتیں بانٹنا، لوگوں کے فکرو عمل سے توہمات کی گرد جھاڑنا، دل میں لگے جالے صاف کرنا اور صراط مستقیم کی نشاندہی کرنا ان کی زندگی کا مقصد تھا اور وہ تادم آخر اسی مقصد کے حصول میں مصروف رہے وفات سے کوئی دس برس قبل ہی وہ سانس کے عارضے میں مبتلا ہو چکے تھے۔([23]) لیکن انہوں نے اپنے اس مرض کو اپنی تدریسی و تبلیغی تدریسی سرگرمیوں میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا تھا۔ بلکہ محفل میں ان کی گفتگو کی روانی قابل رشک تھی مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے پھیپھڑوں کی نالیوں میں سکڑاؤ کا عمل زیادہ تیز ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کا مرض Prostate Gland آخری حد تک تشخیص کر کے Kidney transplant کا مشورہ دیا آپ نے زندگی کی آخری محفل اکتوبر ۱۹۹۲ء میں سجائی جس میں موضوع کے حوالے سے اپنی موت کی تاریخ کا اشارہ دے دیا۔ احباب کے اصرار پر وہ لندن بھی گئے۔ ([24]) اور جاتے ہوئے مسکرا کر بولے جو بھی ہونا ہے یہیں آ کر ہو گا۔ لندن میں ڈاکٹروں نے مرض بڑھ جانے کی وجہ سے مجوزہ علاج کو رد کر دیا۔ وطن واپس آ کر اہلِ خانہ اور ارادتمندوں کو صبر کی تلقین کی اور شعائر اللہ کے مطابق زندگی گزارنے اور عفو و درگزر کی خاص طور پر نصیحت کی اور کہا اچھا اب دعا کرو اللہ نجات دے دے بہت ہو چکی ہے بالآخر اللہ نے انہیں۱۸جنوری کو اس فانی دنیا سے نجات دے دی۔
۱۹ جنوری۱۹۹۳ء کو اس مرد درویش کو بہاولپور روڈ پر واقع لاہور کے مشہور تاریخی قبرستان میانی صاحب میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی وفات کی خبر اُسی رات پاکستان ٹیلی ویژن کے خبرنامے میں معزز و مشہور شخصیات کے تغریتی بیانات کے ساتھ نشر ہوئی۔([25])
آپؒ نے اپنی پوری زندگی انسانوں کے کردار و ذہن کی تعمیر میں گزاری۔ تعمیر اخلاق قوم کی ہو یا فرد کی۔۔۔ محبت اور خدمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اصلاح معاشری کی مہم۔۔۔ محبت اور خدمت کی صورت میں مکمل ہوتی ہے۔ بصورت دیگر جبر کے تازیانے صرف باہر سڑکوں پر ڈسپلن قائم کرتے ہیں لیکن باطن کے آنگن میں وہی وحشی جذبے بے لگام دوڑتے پھرتے ہیں جیسے مغربی ممالک جو خدمت کرنا جانتا ہے، وہ تنقید نہیں کرتا۔۔۔ اور جو خدمت نہیں کرنا چاہتا وہ صرف تنقید کرتا ہے۔ تنقید کا عمل ماحول کو خوبصورت نہیں رہنے دیتا۔۔۔ جبکہ اصلاح احوال کے لیے اندر اور باہر کے ماحول کا خوبصورت ہونا ضروری ہے۔ محبت خود کو خود میں توڑتی رہتی ہے لیکن باہر سب جوڑ دیتی ہے۔ اصلاح باہم جڑنے اور جوڑنے کا عمل ہے اور واصفؒ کا سب سے بڑا اصلاحی کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے محبت سے قوم کی اصلاح کی ہے تنقید سے نہیں اور آپؒ کے بہت سے مریدین نے دعویٰ کیا کہ واصفؒ نے وفات کے بعد اپنی رسم قل کے بارے میں ہدایات دیں جس سے آپؒ کا مر کے بھی زندہ رہنا ثابت ہوتا ہے۔([26])
موت کے بارے میں واصف ؒ کا شعر ملاحظہ ہو ۔
؎موت کیا ہے حق سے بندے کو ملانے کا سبب
موت سے ڈرتے نہیں جو جاگتے ہیں نیم شب
زندگی اور موت ہے اپنی خدا کے واسطے مرد مومن ہے فقط صبرو رضا کے واسطے[27]
۱۔ ریاض احمد: صاحب حال ملک بقا کا سفیر،لاہور، مکتبہ جدید پریس۲۰۱۸ء،ص ۷۸
۲۔ محمد ظہیر بدر، پروفیسر: احوال و آثار واصف علی واصف، لاہور،مکتبہ تعمیر انسانیت(تعمیر انٹر پرائزز)،۱۹۹۷ ء،ص: ۱
۱ ۔ محمد ظہیر بدر: احوال و آثار واصف علی واصف، ص:۲۴
۱۔ محمد ظہیر بدر: احوال و آثار واصف علی واصف، ص: ۲۶
۱۔ ریاض احمد:’’مجدد طریقت سیدنا واصف علی واصف‘‘،لاہور، سویر آرٹ پریس ،۱۹۹۴ء،ص۵۴
۲۔ محمد ظہیر بدر، واصف علی واصف: احوال آثار، ص۲۹
۳۔ ریاض احمد:’’مجدد طریقت سیدنا واصف علی واصف‘‘،لاہور، سویر آرٹ پریس ،۱۹۹۴ء،ص۵۴
۱ ۔ محمد ظہیر بدر، احوال و آثارواصف علی واصف، ص ۳۲
۱ ۔ محمد ظہیر بدر، احوال و آثارواصف علی واصف، ص ۳۲
۱۔ ریاض احمد: مجدد طریقت سیدنا واصف علی واصف،ص ۲۹
۲۔ محمد ظہیر بدر، احوال و آثارواصف علی واصف، ص ۴۰
۱ ۔ صاحبزادہ ، مہہتم ، عائشہ شفقت ، برائے ایم فل ریسرچ اسلام سٹڈیز ، لاہور : جوہر ٹاؤن، ۲۱ اگست ،۲۰۱۹ء
۲ ۔ محمد ظہیر بدر، احوال و آثارواصف علی واصف، ص ۱۹
۱۔ ریاض احمد: مجدد طریقت سیدنا واصف علی واصف ، ص ۱۳۹،۱۴۰،۱۴۳
۲۔ انٹرویو،صاحبزادہ، مہتمم عائشہ شفقت، برائے ایم فل ریسرچ اسلامک سٹڈیز ، لاہور، جوہر ٹاؤن ، ۲۱ اگست ، ۲۰۱۹ء
۳۔ ریاض احمد:مجدد سیدنا واصف علی واصف، ص ۴۴
۱۔ ریاض احمد: سیدنا واصف علی واصف،ص۴۵
۳۔ واصف علی واصف: شب چراغ، لاہور، کاشف پبلی کیشنز ، س۔ ن ، ص۶۲