تحریر : عبدالوحید نظامی العظیمی
کائنات کی دو ہی حالتیں ہیں
(۱)۔ زمان (۲) مکان
زمان کیا ہے ، کیسے بنا ، اس کا مٹریل یا ساخت کیا ہے آج تک دنیا کا کوئی فلسفی ، دانشور ، سائنس دان یا عالم فاضل ذہین و عقل مند اس کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا اور یہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے کہ یہ زمان ہے ۔
دنیائے علوم کی کوئی بھی ایسی طرز نہیں جس مین مکان شامل نہ ہو اگر مکان کی تفصیل میں جائیں تو اس میں مہارت رکھنے والے کو دانشور ، فلسفی ، عالم فاضل ، ذہین ، عقل مند ، سائنس دان ، ماہر ، فنکار یا تخلیق کار کا نام دے دیا جاتا ۔ مثلا ً
ماہر حسابیات ، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات ، ماہر حیاتیات ، ڈاکٹر ، انجینئر ،مصور ، ترکھان وغیرہ ، علوم کے اندر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک ماہر زمانیات کی نشاندہی علم مکانیات کی روشنی میں نہیں ہو سکی ۔
’’ ہر وہ چیز جو انسانی حواس میں آ جائے وہ رنگ ، پیمائش ، وقت یا مادے کی کوئی بھی ایک طرز ضرور ہو گی ۔ باطنی علماء کرام حواس میں آنے والی ہر چیز کو فکشن کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حواس حدود جسم کے ذریعے استعمال میں لائے گئے ہیں ۔‘‘
نوع انسان کی بد قسمتی ہے کہ اس نے مادی حواس کو صرف اور صرف مکان یا مادے کے اندر استعمال کیا کبھی بھی زمان کے اندر نہیں اتارا ، مادے کا باریک سے باریک ذرہ ، ایٹم ، بیج ، وائرس ، بیکٹریا ، جراثیم ، الیکٹران اور فوٹان سے لیکر بڑے سے بڑے کہکشانی نظام دریافت کرلئے لیکن یہ سب کچھ زمان کے اندر ہے مگر زمان کو کبھی بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔
حالانکہ ایک ذرہ اس کا اندر بھی خلا ء یا زمان ہے اور باہر بھی زمان ہے اس ذرے کے اندر زمان جب دباؤ ڈالتا ہے تو یہی ذرہ پہاڑ بن جاتا ہے ۔ جب اس پہاڑ کے باہر زمان دباؤ ڈالتا ہے تو پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ذرہ بن جاتا ہے ۔ پانی ، دودھ یا تیل بیکٹیریا کے علاوہ کچھ نہیں اس بیکٹیریاکا پھولنا اور سمٹنا زمان کی مرہون منت ہے ۔
حیوانات ہوں ، نباتات ہوں یا دیگر مخلوقات یہ سب کیڑوں کی مخصوص مقدار کے اکٹھے ہونے کا نام ہے جو خاص ترتیب میں ڈھل کر آدمی ، جانور ، جمادات اور پھل ، پھول اور سبزیاں بن جاتی ہیں ۔ سائنس اس علم کو Cytology کا نام دیتی ہے ۔ تمام جاندار اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کیڑوں سے مرکب ہے آپ انہیں بیکٹریا کے نام سے جانتے ہیں ۔
یہ عمل زمان ، دہر ، وقت ، خلاء یا ٹائم کے اندر رونما ہو رہا ہے چونکہ حواس نے کبھی زمان کے اندر اترنے کی کوشش نہیں کی اگر زمان کے اندر تفکر کیا جائے تو حواس غیب کی دنیا کو سامنے لے آتے ہیں ۔ حواس سے مراد مادی آلات بھی ہیں جو نا دیدہ شے کو حواس تک لے آتے ہیں ۔ خوردبین ، دور بین ، ٹیلی سکوپ ، مائیکرو ویو آلہ سماعت وغیرہ اسکی مثال ہیں ۔ شے بتدریج نشوونما پاتی ہوئی مختلف مدارج سے گزرتی ہے ، مادی حواس کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور بالآخر محدود حواس کی رینج سے اوجھل ہو جاتی ہے سائنسی زبان میں اس طریق کار کو Fermentation یعنی عمل خمیر کہتے ہیں ۔
عمل خمیر کا مظاہرہ زمان کے اندر سے ہی ہو رہا ہے ۔ کیونکہ اس کا سارا ریکارڈ زمان میں موجود ہے ۔ باطنی علوم کے ماہرین اسکی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ ہر شے زمان سے وجود میں آتی ہے وجود اسپیس ہے اور اسپیس میں نشونما پاتا ہے ۔ ریت کا ذرہ سے چھوٹا خوردبینی وجود مختلف مراحل سے گزر کر جوان اور بوڑھا ہوتا ہے ۔ اسپیس سے نشوونما دے کر جوا ن کرتی ہے اور وہ اسی اسپیس میں خاک ہو جاتا ہے ۔ یہ وہی اسپیس ہے جہاں آدمی ، درخت ، چیونٹی ، بلی اور وہیل مچھلی وغیرہ عدم سے ظاہر ہو کر غائب ہو جاتے ہیں ۔ شکست و ریخت کا یہ عمل کس طرح ہوتا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ زمان کے اندر تین چیزیں ظاہر ہوتی ہیں ۔
(۱) آواز (۲)حرارت (۳) روشنی
یہ تینوں چیزیں مادے کی کوئی دو حالتوں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے ۔
روشنی ، حرارت اور آواز کے اوپر حواس کو مرکوز کیا جائے تو انکشاف ہو گا کہ کائنات کی بنیاد یہی تین چیزیں جو مٹریل کو وجود میں لا رہی ہیں ۔ قرآں نے روشنی کو نور ، حرارت کو دخان اور آواز کو رعد کا نام دیا ہے ۔ ان تینوں کے درمیان دہر زمان ،فاصلہ یا خلا ہے ۔ سورہ نور، سورہ دخان ، سورہ رعد اور سورہ دہر اور پورے قرآن کا لب لباب یہ ہے کہ نور یا روشنی ، دخان یا حرارت آواز یا رعد کے درمیان دہر یا زمان اپنے اندر پوری کائنات کا ریکارڈ رکھتے ہیں ۔ اس ریکارڈ کے اندر جو شکل و صورت یا خدو خال ہیں اس کے ساتھ نور ، حرارت اور آواز کی لہریں ٹکراتی ہیں یہ لہریں اس ریکارڈ کے ساتھ ٹکرانے سے اس نقشے کے مطابق اشکال میں ڈھلنے لگتی ہیں ۔ ان اشکال کی ابتداء میں لہریں بنتی ہیں یہ لہریں رنگوں میں تبدیل ہوتی ہیں یہ رنگ مادے کا روپ دھارنا شروع کر دیتے ہیں حواس میں آنے والی شکل مادے کی ابتدائی حالت ، ایٹم ، سیل ، بیکٹریا یا جرثومے کا نام دیا جاتا ہے ۔ جو بڑھتے بڑھتے کائنات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز مقداروں پر قائم ہے ان مقداروں کا علم بھی قرآن میں موجود ہے ۔
