urdu quotes اردو اقوال

Table of Contents

تحریر: شگفتہ اقبال ( ماہر نفسیات)

اپنی آج کی اس تحریر میں میں آپکو بتاوں گی کہ کس طرح سے کوئی کمپنی اور ادارہ اپنے مزدوروں کی رضا مندی کے ساتھ بہت جلد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ کوئی کمپنی یا ادارہ ناکام کیسے ہوتے ہیں؟
آئیے جانیے میری زبانی جیسے کے آپ سب جانتے ہیں کے کوئی بھی کمپنی ہو یا ادارہ کام اس کے سی ای او سے شروع ہوتا پھر منیجر پرنسپل وائس پرنسپل اور کمپنی میں صفائی کرنے والے ملازم پر ختم ہوتا ہے ہر فرد بہت اچھے سے کام کر تا ہے ہر کسی کاکردار الگ ہوتا ہر کسی کا مقصد پہلے عزت اور پھر ترقی کا سفر ہوتا سبھی اپنا فرض نبھانے کی پوری کوشش میں ہوتے مثال کے طور پر اگر کمپنی کی صرف ایک دن صفائی نا ہو تو سارا نظام درہم بھرہم ہو جائے اور کمپنی کے سی ای او کو لینے کے دینے پڑ جایں۔ کسی بھی ادارے سکول یا کمپنی کو چلانے کے لیے وہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کو مطمئن کرنا انکو سب فراہم کرنا کسی بھی ادارے کا پہلا فرض ہوتا ہے انکو ہر کام پر حوصلہ افزائی کرنا اس کے کام کو اچھا کہتے ہوئے ترقی دینا بھی کمپنی کا فرض ہے تا کہ وہ اور دل جمعی سے کام کر کے کمپنی اور اپنے وطن کا نام روشن کر سکے جو کمپنیاں اس بات کا خیال رکھتی ہیں ہر مزدور کو الگ سے اہمیت دیتی ہیں چاہے ان کے لیے کتنا بھی مشکل ہو وہی کمپنیاں آج کامیاب ہیں چاہے وہ کام کسی پرنسپل کی نگرانی میں کیا ہو یا مینیجر کی ،انعام اسکو الگ دینا ہی کسی بھی کمپنی کا فرض ہے جب الگ سے اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ایک تو کمپنی کا نام روشن ہوتا اور دوسرا اسے جینے کے لیے یہ حوصلہ افزا الفاظ بہت مظبوط کر دیتے ہیں اور ایسے ہی اداروں کا آج نام روشن ہےاب ہوتا کیا ہے آج میں خاص کر بات کروں گی پاکستان اور انڈیا کی مثال کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔
کیوں بے روزگاری ہو رہی؟
کیوں قتل و غارت عام بات بن رہی؟
کیوں نشے کے عادی افراد میں اضافہ ہو رہا ؟
کیوں لڑائی جھگڑے کو لوگ اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں ؟
کیوں معاشرے والوں کے لیے اور گھر والوں کے لیے اذیت بنتے جا رہے؟ کیا وہ یہ سب خود کرتے ہیں؟ کیا ان کی رضا مندی شامل ہوتی ہے؟ کیا انکو اچھا لگتا ہے؟۔ نہیں نہیں نہیں بلکہ حقیقت اس کے الٹ ہے جو بہت سے لوگ تو سننا ہی پسند نہیں کرتے ۔ اب کمپنی کا سی ای او جو کمپنی چلا رہا ہے وہ حکم کو اپنے سے نیچے فرد کو بھیج دیتا ہے اور وہ اس سے نیچے والے کو اور وہ چیک کر کے اس سے نیچے والے کو اور آخر کار وہ یہ کام ایک گروپ کی شکل میں مزدوروں کے حوالے کر دیتا اور سب بتا کے کہتا کہ مجھے یہ کام فلا ں فلاں دن کو چاہیے اب ایک گروپ میں دس لوگ اس پہ کام کرنا شروع کر دیتے اب وہ دس لوگ مختلف گھروں اور معاشروں سے تعلق رکھے ہوتے ان سب کی سوچ الگ ہوتی پر کوئی بھی کام جو انکو دے دیا جاتا وہ اس وقت سب کچھ بھلاکر کام پہ لگ جاتے بس اپنے کام پر سارا وقت لگا دیتے اور سب الگ الگ کام پہ لگ جاتے جب انکو کام کے لیے بلایا جاتا ہے تب سب کی ایک آواز ہوتی سب بادشاہ بنے ہوتے کے سر ،مس اپ بے فکر ہوجائیں کام ایک دم اوکے ہو گا اور وہ پرنسپل مطمئن ہو کے چلے جاتے اب ہم دیکھ لیتے کہ ان میں بادشاہ کون ہوتا ہے اب سارے گروپ میں سے کچھ لوگ بہت اچھے سے کام کرتے دن رات لگا دیتے تا کہ اچھا کام کر کے ترقی ہو اپنی اور اس کے گھر والوں کی زندگی بن جائے سب میں ہر ایک اچھی سے اچھی تعلیم کے ساتھ ہوتا بہت محنت کی ہوتی ہے سب نے ۔اب ہوتا کیا کے کچھ دن رہ گئے اور پانچ لوگوں نے کام مکمل کر لیا اور رہ گے پیچھے پانچ لوگ اب جب ان سے کام مانگا جاتا وہ کہتے ابھی تو بہت کام رہتا وقت لگ جانا ہم سے نہیں ہوا ابھی یہ وہ سب کہہ دیتے کیوں کے اب انکو پتاہوتا کے دینا کام سب نے برابر کیوں کے ترقی ایک کے کام کو دیکھ کے نہیں دی جاسکتی تو مجبورا ان کو ان کے ساتھ سارا کام پھر سے کرنا پڑتا انکا بھی اور جب کام مکمل ہو جاتا ہے پرنسپل کے پاس جاتے وہ کام کو لے کے آگے بھیج دیتا کام اچھا ہوتا اور ترقی ہو جاتی پرنسپل کی جس نے شاید کام کو بڑی مشکل ایک دو بار سر سری نظر سے دیکھا ہوتا اب پرنسپل سب کو بلا کر مبارک باد دیتا اور جب ان میں سے کچھ لوگ کہتے کے سر اور میم ہمارا کام زیادہ ہے ہمیں ترقی دلوائی جائے ان کی بات کو سن کر ٹال مٹول کر دیا جاتا کیوں کہ جب بات آگے جانی خیر تو پرنسپل کی بھی نہیں کہ اس وقت آپ کہا ں تھے اور یہ سلسلہ ایسے ہی شروع ہو جاتا وہ کہتے رہتے ۔اور بات آئی نوٹ کی اور بات بعد میں ختم۔ یہ وہ لوگ جن کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ ترقی اور کامیابی پہ ہوتا نام روشن ہوتا اور ساری کمپنیاں ان کے کام کو اچھا کہہ رہی ہوتی اور وہ خاموش رہتے کے بات بن جائے گی اسی طرح محنت پہ لگے رہتے اور پھر جب ان کی برداشت کی حد ختم ہوتی تو وہ خودی سی ای او تک چلے جاتے اب چونکہ بات سی ای او کو نہیں پتہ اور پرنسپل یہ کہہ کر بات ختم کر دیتا کے سر انکو بات بات پہ لڑائی جھگڑا کرنے کا شوق ترقی کی وجہ سے نام کے لیے اب چونکہ سی ای او صاحب پرنسپل کے زیادہ قریب ہوتے اسی کی بات کو ترجیح دیتے اور بات کو ختم کر دیا جاتا اور پھر سے کام پہ لگا دیا جاتا سب کو اب کیا ہوتا کہ وہی فرد جو بہت اچھا کام کرتے تھے کام سے اُکتا جاتے دل بھر جاتا اور پھر وقت آتا نوکری چھوڈ دیتے جس کی وجہ سے کمپنی کے نقصان سامنے آتے۔ کیوں کہ اسی وقت کوئی موجود نہیں ہوتا اور دوسرا وہا ں کام کرنے والے ٪50لوگوں کا یقین سی ای او اور پرنسپل سے اٹھ جاتا ہے اور دوسری طرف اس شخص کا خاندان اور دوست اس سے باغی ہو جاتے اور وہ محنت کو چھوڑ کے غلط طریقے سے کام کرنے کو اہمیت دیتا کیوں کہ وہ محنت سے کام کر کے صلہ پا چکا ہوتا اور رسوائی اور ناکامی مقدر بن جاتی یہاں یہ سب کہنے کا مقصد بےروزگاری کے ذمہ دار صرف آج کل کی نوجوان نسل نہیں ہے جب انکو نوکری اور عزت انکی تعلیم کے حوالے سے نہیں ملتی تب وہ ایسا کرتے گزارش ہے سب سے اس تحریر کو پڑھ کے نظر انداز نہیں کرنا ہے اس پہ عمل کریں مہربانی تا کہ مزید بےروزگاری اور فسادات کو روکا جا سکے انصاف قائم کرو خواہ کام کرنے والا کوئی آفیسر ہو یا روٹی بنانے والا مزدور اس طرح حق بھی ادا ہو جائے گا اور کام بھی۔ نہیں تو مجرموں کی کمی نہیں ہے پہلے ہی ہمارے ملک میں حساب بیشک سب سے لیا جائے گا کوئی نماز ادا کرکے یہ مت سمجھ بیٹھے کے حساب ختم بیشک حساب بہت بڑے نام کا سودا ہے ۔شکریہ

Writer
Clinical psychologist
Speech and language pathologist
Miss shaghufta iqbal

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *