ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

 ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

 رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے

 تم سے تھے جتنے استعارے تھے

 تیرے قول و قرار سے پہلے

 اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے

جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے

 میرے دامن میں آ گرے سارے

 جتنے طشت فلک میں تارے تھے

 عمر جاوید کی دعا کرتے  فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *