آسماں سے اُتر نہیں سکتا
آسماں سے اُتر نہیں سکتا
میں تو سورج ہوں مر نہیں سکتا
اپنی چاہت پہ اب بھی قائم ہوں
اُن کی نفرت سے ڈر نہیں سکتا
پھر اُسی ہاتھ میں ترازو ہے
وہ جو انصاف کر نہیں سکتا
میرے کردار پر تو دشمن بھی
کوئی الزام دھر نہیں سکتا
کوئی اشعار کی زمینوں سے
پیٹ بچوں کا بھر نہیں سکتا
جعفر سلیم غزل