پوری نہ ہو سکیں کبھی اپنی ضرورتیں
پوری نہ ہو سکیں کبھی اپنی ضرورتیں
نشتر نہ مل سکا کبھی مرہم نہ مل سکا
آب و ہوا کے چاروں ہی موسم گزر گئے
ہم کو ترے مزاج کا موسم نہ مل سکا
جس میں تمہاری یاد کی خوشبو سجا سکوں
کوشش کے باوجود وہ البم نہ مل سکا
جنت کے منظروں کو اجالوں کے واسطے
آدم کے بعد کوئی بھی آدم نہ مل سکا
ہم پر تو قسط وار ہوئی ہیں عنائتیں
غم بھی ملا کبھی تو وہ پیہم نہ مل سکا